مہر نیوز رپورٹر کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے تہران میں “طوفان الاقصی اور غزہ، حقائق اور بیانیے” کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقاومت کو ایک مکتب اور آئیڈیالوجی قرار دیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مزاحمت ایک مثالی مکتب ہے جسے فضائی بمباری سے تباہ نہیں کیا جاسکتا اور مزاحمت کا اصل ہتھیار عام فوجی اسلحہ نہیں بلکہ شہداء کا لہو ہے جو جنگی ٹیکنالوجی پر فتح پاتا ہے۔
عراقچی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ عملی میدان اور سفارت کاری دو الگ الگ شعبے نہیں ہیں بلکہ ایک مربوط مجموعہ ہیں۔ سفارت کاری میدان کی کامیابیوں کو استعمال کرتی ہے اور انہیں قومی وقار میں بدل دیتی ہے۔
عراقچی نے مزید کہا کہ میدان اور سفارت کاری کے علاوہ ایک تیسرا رکن میڈیا ہے جو فتح و شکست کے بیانئے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ میدان، سفارت کاری اور میڈیا کو ایک ساتھ چلنا چاہیے، تاکہ کامیابیوں کا صحیح رخ سامنے آسکے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ جس طرح میدان اور ڈپلومیسی میں جنگ جاری ہے، اسی طرح میڈیا اور بیانیہ کی دنیا میں بھی جنگ جاری ہے، لہٰذا جو بیانئے کی جنگ جیت جائے گا وہی فاتح کہلائے گا۔
عراقچی نے زور دیا کہ یہ ضروری ہے کہ مزاحمت کے ثمرات درست طریقے سے بیان کئے جائیں، مزاحمت یقینا ایک مشکل دور سے گزری ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ وہ خود کو دوبارہ تعمیر کرے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ مضبوطی کے ساتھ میدان میں واپس آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے مزاحمت کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور میڈیا اس جنگ میں ہمارے ساتھ رہا ہے۔