گراؤنڈ رپورٹ: ’یہ کیسا عالیشان مہاکمبھ؟‘ عقیدتمندوں کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکار بھی دبی زبان میں پوچھ رہے سوال

جب میلہ والے علاقہ میں داخل ہوا تو میں نے کئی طرح کے مسائل کا سامنا کیا، حالانکہ اس پریشانی کو میں لوگوں کی زبان سے سمجھنا چاہتا تھا اس لیے وہاں موجود عقیدتمندوں سے ان کے تجربات جاننے کی کوشش کی۔

<div class="paragraphs"><p>مہاکمبھ میں بدانتظامی</p></div><div class="paragraphs"><p>مہاکمبھ میں بدانتظامی</p></div>

مہاکمبھ میں بدانتظامی

user

پریاگ راج میں لگے سب سے بڑے مذہبی میلہ ’مہاکمبھ 2025‘ کو ملک ہی نہیں، پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ لیکن جو نظر نہیں آ رہی وہ ہے یہاں آئے لوگوں کی پریشانی، حکومت کی بدانتظامی اور میڈیا پر بن رہا دباؤ۔ جو دکھایا جا رہا ہے، وہی دنیا دیکھ رہی ہے۔ ظاہر ہے، جو دکھایا ہی نہیں جائے گا اسے آخر دنیا دیکھے گی کیسے! زمین پر موجود مسائل اور عالیشان مہاکمبھ کی حقیقت سے واقفیت حاصل کرنے میں گراؤنڈ پر پہنچا۔ میلہ میں پہنچنے پر پتہ چلا کہ یہاں تو بے شمار دقتیں ہیں، لیکن سب کچھ کروڑوں لوگوں کی بھیڑ میں دب کر رہ گیا ہے۔

میلہ والے علاقہ میں انٹری کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہیں کئی طرح کی پریشانیاں

میں جب میلہ علاقہ میں داخل ہوا تو کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن میں اپنی پریشانیاں نہیں بلکہ لوگوں کی پریشانی ان کی زبان سے سننا اور سمجھنا چاہتا تھا۔ میں نے میلہ میں موجود لوگوں سے بات کی۔ ہماری کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی آواز حکومت تک پہنچائیں، لیکن جب لوگوں سے بات چیت ہوئی تو ان کے اندر ایک خوف بھی دیکھنے کو ملا۔ یہ خوف کیسا تھا، اسے میں اپنے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔

کئی لوگ ایسے تھے جو اپنی پریشانیوں سے متعلق کہنا تو بہت کچھ چاہتے تھے، لیکن موبائل کا کیمرہ دیکھ کر ٹھہر سے جاتے تھے۔ حالانکہ کئی لوگ ایسے بھی ملے جو حکومت سے کئی طرح کے سوال پوچھ رہے تھے۔ سوال ان سے کیے گئے وعدوں کو لے کر، سوال انتظام و انصرام کو لے کر اور سوال ان کی جان کی حفاظت کو لے کر تھے۔

صرف چینلوں، سوشل میڈیا اور سرخیوں میں ہی نظر آ رہا ’عالیشان مہاکمبھ‘

لوگوں کا ماننا ہے کہ جو ٹی وی چینل یا اخبارات کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر دکھایا گیا، وہ صرف اوپری سطح ہے۔ اندر کیا کچھ ہورہا ہے، ہی کسی نے نہ ہی بتایا اور نہ ہی اس پر بحث کرنے کے لیے کوئی تیار ہے۔ یہ مہاکمبھ عالیشان تو ہے، لیکن صرف سوشل میڈیا پر، کیونکہ جب آپ زمین پر اتر کر اسے سمجھنے کی کوشش کریں تو یہ برعکس نظر آتا ہے۔ کچھ ایسے ہی الفاظ سورت سے آئی بیلا دیوی کے ہیں جو اپنا درد بیان کرتے ہوئے پریشان بھی نظر آتی ہیں۔

بیلا دیوی کہتی ہیں کہ ’’پریشانی تو تب سے شروع ہو گئی تھی جب ہم لاکھوں کی بھیڑ میں دب کر جیسے تیسے ٹرین سے یہاں پہنچے ہیں۔ حالانکہ یہ پریشانی واپس گھر پہنچنے تک زیادہ بڑھ بھی سکتی ہے۔‘‘ بیلا دیوی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ جس انتظام کو لے کر بڑے بڑے دعوے کیے گئے وہ وعدے پھُس ہو چکے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کمبھ والے علاقہ میں انٹری کرنے سے ہی پتہ چل گیا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ انھیں نہ کوئی رکشہ ملا اور نہ ہی کوئی راستہ بتانے والا۔ ان کے ساتھ آئے رام پرکاش کہتے ہیں کہ جیسے تیسے ہم نے سنگم پہنچ کر ڈبکی تو ضرور لگا لی، لیکن بدانتظامی نے ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

انتظامیہ زبردستی کسی بھی گھاٹ کو سنگم گھاٹ بتا کر وہاں ڈبکی لگوا رہی

بھیڑ بھاڑ کے درمیان اپنے رشتہ داروں سے بچھڑ چکی مونگیر سے آئی شیلا دیوی بھی بہت ناراض ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ زبردستی کسی بھی گھاٹ کو سنگم گھاٹ بتا کر وہاں ڈبکی لگوا رہی ہے۔ ان کے ساتھ آئی سمترا کہتی ہیں کہ ’’کروڑوں لوگوں کو مل رہی سہولت کا وعدہ بالکل جھوٹا ہے۔ آپ کو ایسے ہزاروں لوگ مل جائیں گے جو یہاں آ کر پچھتا رہے ہیں۔‘‘ سمترا دیوی مزید کہتی ہیں کہ ’’حکومت نے جن ٹوائلٹ کی بڑھ چڑھ کر تشہیر کی، ان کی حالت بد سے بدتر ہے۔ نہ ان کی صفائی ٹھیک سے ہو رہی ہے، نہ ہی وہاں کوئی ذمہ دار شخص نظر آ رہا ہے جس سے مدد لی جا سکے۔‘‘

سمترا کہتی ہیں کہ اب تک وہ 30 سے زیادہ کلومیٹر پیدل چل چکی ہیں، کیونکہ وہ نہ صرف غسل کرنے آئی تھیں بلکہ اپنے گرو کی زیارت کرنے بھی آئی تھیں۔ لیکن اسٹیشن سے جس راستہ سے عام لوگوں کو مہاکمبھ میں بھیجا جا رہا ہے وہاں سے اکھاڑوں والی جگہ بہت دور ہے۔ سمترا یہ بھی کہتی ہیں کہ کچھ لوگ ٹھیلے ضرور چلا رہے ہیں، لیکن وہ بھی اناپ شناپ کرایہ لے رہے ہیں۔

عقیدتمند پوچھ رہے سبھی پیپا پُل وی آئی پی کے لیے تو ہمارے لیے کیا؟

اتر پردیش کے ایٹہ سے اپنے دوستوں کے ساتھ مہاکمبھ میلہ پہنچے ہریش نے بھی بدانتظامی کو لے کر اپنی ناراضگی ظاہر کی۔ ہریش نے کہا کہ ’’نہ صرف ہم کو یہاں پیدل چلنا پڑ رہا ہے، بلکہ انتظامیہ بھی قصداً ایسے راستوں سے جانے کے لیے کہہ رہی ہے جو کئی کلومیٹر طویل ہے۔‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’’مان لیجیے جس راستے سے آپ 3 کلو میٹر بعد سنگم پہنچ سکتے ہیں، وہاں 8 کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘ ان کے ایک ساتھی نے کہا کہ 30 پیپا پُل بنائے گئے ہیں جن میں سے عام آدمی کے لیے اب تک 2 ہی پُل دیے گئے۔ باقی وی آئی پی کے لیے بلاک رہتے ہیں۔ اگر اچانک کوئی وی آئی پی آ جائے تو شاید وہ 2 پُل بھی بند ہو جائیں۔

کروڑوں لوگوں کو کس طرح سنبھالیں گے ہزاروں کی تعداد والے پولیس اہلکار؟

انتظام و انصرام کے لیے ڈیوٹی پر تعینات ایک پولیس اہلکار سے بھی میں نے بات کی۔ ان سے جب سوال کیا گیا کہ ’انتظامیہ کیا کر رہا ہے؟‘ تو نام نہ لکھنے کی شرط پر انھوں نے غصے میں جواب دیا کہ ’’بھیا ایک بات بتائیے، ہمیں یہاں تعینات کیا گیا ہے تو ہم یہیں کا دیکھیں گے نہ۔ پھر چاہے کتنی بھی بھیڑ ہو، ہمیں ہی دیکھنا ہے۔ ہمارے سینئر یہ نہیں سمجھیں گے کہ کروڑوں کی بھیڑ تھی اور تم ایک تھے۔ وہ بس یہی پوچھیں گے کہ تم نے اپنا کام کیوں نہیں کیا۔‘‘

حکومت کے تئیں ناراضگی بھرے انداز میں انھوں نے کہا کہ کروڑوں لوگوں کی بھیڑ سنبھالنے کے لیے میلے میں بس 70 سے 80 ہزار پولیس اہلکار ہیں۔ اتنے سے کیا ہوتا ہے، یہ تو لوگوں کی جان سے کھیلنے والی بات ہے۔ جب ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ صرف یوپی پولیس کی بات ہے یا باہری سیکورٹی فورسز بھی اس میں شامل ہے۔ جواب میں انھوں نے کہا کہ مجموعی طور پر ایک سوا لاکھ ہوں گے، اس سے بھی کیا ہی ہوتا ہے۔ آپ کس طرح کروڑوں کی بھیڑ کو ایک لاکھ سیکورٹی اہلکاروں کے بھروسے چھوڑ سکتے ہیں۔


[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *