امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر ملکی امداد کی معطلی نے 40 ہزار سے زائد افغان تارکین وطن کی پروازوں کو معطل کر دیا ہے، جو خصوصی امریکی ویزا پروگرام کے تحت منظور ہو چکے تھے اور اب طالبان کے انتقامی کارروائیوں کے خطرے سے دوچار ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر افغان افغانستان میں ہیں جبکہ باقی پاکستان، قطر اور البانیہ میں ہیں۔ یہ بات ’افغان ایویک ‘ گروپ کے سربراہ شاون وان ڈائیور اور ایک امریکی عہدیدار نے کہی ہے۔ یہ گروپ ویتنام جنگ کے فوجیوں اور دیگر گروپوں کا اتحاد ہے، جو امریکہ کے ساتھ مل کر ان افغانوں کو انخلاء اور آبادکاری میں مدد فراہم کر رہا ہے جنہوں نے افغانستان میں 20 سالہ جنگ کے دوران امریکہ کے لیے کام کیا تھا۔ افغان تارکین وطن کےانخلاء کی معطلی ٹرمپ کے اس حکم کی وجہ سے ہوئی ہے جس کے تحت غیر ملکی ترقیاتی امداد کو 90 دنوں کے لیے معطل کر دیا گیا ہے تاکہ اس کے مؤثر ہونے اور ’امریکہ فرسٹ‘ خارجہ پالیسی سے ہم آہنگی کا جائزہ لیا جا سکے۔
قانونی و دیگر ماہرین کے مطابق غیر ملکی امداد کی معطلی نے امریکہ اور بین الاقوامی امدادی آپریشنز میں افراتفری پیدا کر دی ہے اور غذائیت، صحت، ویکسی نیشن اور دیگر پروگراموں کو روک دیا ہے۔ اس حکم کے بعد، امریکی وزارت خارجہ نے ایسے گروپوں کے لیے فنڈز معطل کر دیئے ہیں جو امریکہ میں رہائش، اسکولوں اور ملازمتوں کی تلاش میں افغانوں کو خصوصی امیگرنٹ ویزا یا (ایس آئی وی) کے حصول میں مدد دیتے ہیں ۔ واضح رہے کہ ٹرمپ نے 2024 میں اپنی کامیاب انتخابی مہم کے دوران امیگریشن پر کریک ڈاؤن کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
وان ڈائیور کو نہیں لگتا کہ پروازوں کی معطلی جان بوجھ کر کی گئی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکی انتظامیہ خصوصی امیگریشن ویزوں کے لیے منظور شدہ افغانوں کے احکام کو چھوٹ دے گی کیونکہ انہوں نے افغان جنگ کے دوران امریکی حکومت کے لیے کام کیا تھا جو اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد ختم ہوئی تھی۔وان ڈائیور کے مطابق، انہوں نے امریکہ کے ساتھ جنگ لڑی ہے، خون بہایا ہے اور اب دسیوں ہزار افغان خصوصی امیگرنٹ ویزا کا انتظار کر رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس اور وزارت خارجہ نے اس پر فوری طور پر تبصرہ نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کے مشن کے مطابق، طالبان نے سابق فوجیوں اور پچھلی امریکی حمایت یافتہ حکومت کے حکام کو حراست میں لیا، تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کیا۔ لیکن طالبان نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا کہ انہوں نے تو سابق فوجیوں اور حکومتی اہلکاروں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے۔
وان ڈائیور اور گمنامی کی شرط پرایک امریکی عہدیدار نے بتایا کہ پروازوں کی معطلی نے 40 ہزار سے زائد افغانوں کو پھنسا دیا ہے، جن میں خصوصی امیگرنٹ ویزا ہولڈر شامل ہیں جو قطر اور البانیہ میں ویزا پروسیسنگ سینٹرز سے امریکہ جانے کے لیے انتظار کر رہے ہیں۔ اس میں وہ افغان بھی شامل ہیں جنہیں خصوصی امیگرنٹ ویزا کے لیے منظوری دی گئی ہے ۔ اگست 2021کے امریکی انخلاء کے بعد سے تقریباً دو لاکھ افغانوں کو خصوصی امیگرنٹ ویزا یا پناہ گزین کی حیثیت سے امریکہ میں آباد کیا جا چکا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابی مہم کے دوران امیگریشن پر کریک ڈاؤن کا وعدہ کیا تھا اور 20 جنوری کو اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس میں تمام امریکی پناہ گزینوں کی آبادکاری کے پروگرام معطل کر دیے گئے۔ اس آرڈر کے نتیجے میں سینکڑوں افغان پناہ گزینوں کو پروازوں پر اپنی سیٹیں گنوانی پڑیں، جن میں فعال افغان امریکی فوجی اہلکاروں کے اہل خانہ، سابق افغان فوجی اور بے یار و مددگار بچے شامل تھے۔
دوسری جانب، بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے چیف پراسیکیوٹر نے طالبان رہنماؤں کے خلاف خواتین پر پرتشدد کارروائیوں کے الزام میں گرفتاری کے وارنٹ طلب کیے ہیں۔ کریم خان کا کہنا ہے کہ معقول وجوہات موجود ہیں کہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف انسانیت کے خلاف جرائم کیے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ اور چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جاری ظلم و ستم کے ذمہ دار ہیں۔ آئی سی سی بہت جلد طالبان کے دیگر اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف بھی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرے گا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ آئی سی سی پراسیکیوٹر نے خواتین اور لڑکیوں کے خلاف نظامی جرائم کی بنیاد پر کیس بنایا ہے۔ یہ افغان کارکنوں کے لیے بھی ایک نادر لمحہ ہے جو طالبان کے ظلم کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ افغان پارلیمنٹ کی سابق رکن اور سرگرم کارکن شکریہ بارک زئی کے مطابق، یہ تاریخی اعلان ایک طاقتور پیغام ہے کہ خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیاں معاف کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے، نہ ہی افغانستان میں اور نہ ہی دنیا کے کسی اور حصے میں۔
اگست 2021میں اقتدار میں واپس آنے کے بعد طالبان نے 80 سے زیادہ ایسے فرمان جاری کیے ہیں جو خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ خواتین کو زیادہ تر کاموں، ثانوی تعلیم اور عوامی مقامات سے روکا گیا ہے، اور ان کی روزمرہ زندگی مختلف طریقوں سے محدود کی گئی ہے۔ حال ہی میں طالبان نے ایسے کمروں میں کھڑکیاں لگانے پر پابندی لگا دی ہیں جن کا اکثر خواتین استعمال کرتی ہیں۔ حکم میں کہا گیا تھا کہ نئی عمارتیں خواتین کے کمروں میں کھڑکیاں بنائے بغیر تعمیر کی جائیں اور موجودہ کھڑکیاں بند کر دی جائیں۔
ممکن ہے آئی سی سی کے اقدام کے فوری نتائج نہ ہوں کیونکہ نہ ہی اخوندزادہ اور نہ ہی حقانی افغانستان سے باہر سفر کرنے کے قابل ہیں جہاں انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اخوندزادہ اکثر اپنی پناہ گاہ قندھار میں رہتے ہیں اور طالبان نے خواتین کے بارے میں بین الاقوامی دباؤ کا جواب ہمیشہ تردید سے دیا ہے۔اس کے باوجود، افغان خواتین جو بنیادی حقوق کے مطالبے کے لیے تشدد اور جلاوطنی برداشت کر چکی ہیں، نے اس کیس کو اپنی جدوجہد کی ایک اہم تائید قرار دیا ہے۔ زہرا حق پرست، جو 2022 میں طالبان کے ہاتھوں قید ہو گئی تھیں اور اب جلاوطنی میں رہتی ہیں، کے مطابق یہ وہ بہترین خبر ہے جو انہوں نے طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سنی ہے۔
اگست 2021 میں اقتدار پر قبضہ کے بعد طالبان کی عائد کردہ پابندیوں کے خلاف ابتدائی غم و غصے کے باوجود، افغان خواتین کے مطابق عالمی برادری جو کبھی ان کے نام پر لڑنے کا دعویٰ کرتی تھی، اس نے پابندیوں کے خلاف زیادہ کچھ نہیں کیا۔ ہیومن رائٹس واچ کی نائب ڈائریکٹر ہیتر بار کے مطابق، افغان خواتین نے محسوس کیا کہ انہیں دنیا نے نظر انداز کیا ہے، جب کہ طالبان نے ان کے حقوق کو نظامی طور پر چھین لیا ہے، لیکن آئی سی سی کا یہ قدم طالبان کے جرائم اور زیادتیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک اچھا آغاز ہے۔ تاہم، افغان انسانی حقوق کی تنظیم رواداری کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شہرزاد اکبر نے آئی سی سی کے اقدام کو تاریخی لیکن ناکافی قرار دیا کیونکہ یہ اقدام افغانستان میں چار دہائیوں سے زائد جاری رہنے والی جنگوں کے دوران دیگر مجرموں کے جنگی جرائم کے متاثرین کو نظر انداز کرتےہیں۔