مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کا دعوی ہے کہ اس کی تشکیل کا بنیادی مقصد جوہری توانائی کے پرامن استعمال کو فروغ دینا اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو روکنا ہے۔ تاہم گزشتہ برسوں کے متعدد شواہد سے ظاہر ہوا ہے کہ یہ ادارہ اپنی غیرجانبدار حیثیت کو کھوچکا ہے۔
ادارے کے ڈائریکٹر جنرل رفائل گروسی نے عالمی اقتصادی فورم میں ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ایجنسی روس، چین اور یورپی ممالک کے ساتھ رابطے میں ہے۔ گروسی کے اس بیان سے قطع نظر یہ واضح ہے کہ امریکہ کا کردار اس میں واضح ہے۔
انہوں نے ایران پر الزام لگایا کہ وہ اب بھی اعلی درجے کے افزودہ یورینیم کی پیداوار جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ بیانات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ایجنسی کا فیصلہ زیادہ تر سیاسی دباؤ کے تحت ہوتا ہے جس سے اس کی غیرجانبداری پر سوالات اٹھتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2018 میں امریکہ کو یکطرفہ طور پر معاہدے سے نکالنے کے بعد بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے بارہا ایران کی جانب سے معاہدے کے تقاضوں کی پاسداری کی تصدیق کی تھی۔ تاہم امریکہ کے نکلنے کے بعد موجودہ حالات پیدا ہوئے ہیں۔ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رفائل گروسی نے ایران کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی جوہری سرگرمیوں پر ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ سمجھوتہ کرے تاکہ مشرقِ وسطی میں کسی اور عسکری تنازع سے بچایا جاسکے۔
گروسی کا یہ مشورہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد ایجنسی کی زبان اور رویے میں واضح تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ گروسی بظاہر ایران کے جوہری مسئلے پر ایران و امریکہ کو براہ راست آمنے سامنے لارہے ہیں۔
یہ بیان اس وقت دیا گیا ہے جب ایران نے امریکہ کے معاہدے سے نکلنے اور یورپی شراکت داروں کی وعدہ خلافیوں کے باوجود معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر عمل کیا۔ ایران نے 18 ماہ تک امریکی پابندیوں اور یورپی ممالک کی وعدہ خلافیوں کو برداشت کیا جبکہ یورپی ممالک ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے وعدوں پر عمل کرنے میں ناکام رہے۔ آخر کار ایران نے معاہدے کے آرٹیکل 36 کے تحت ایجنسی کو اطلاع دیتے ہوئے معاہدے کی چند شقوں سے بتدریج پیچھے ہٹنے کا اعلان کیا۔
ایران کا یہ ردعمل معاہدے کے فریقوں کی وعدہ خلافیوں کے خلاف ایک جائز اقدام تھا۔ تاہم ایرانی حکام نے بارہا واضح کیا ہے کہ اگر تمام فریق اپنے وعدوں کی پاسداری کریں تو ایران اپنے تمام اقدامات کو واپس لے سکتا ہے۔
یاد رہے کہ رافائل گروسی نے گذشتہ سال نومبر کے آخر میں ایران کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے صدر مسعود پزشکیان اور وزیر خارجہ سید عباس عراقچی سمیت ایرانی اعلی عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔
اس سے پہلے گروسی نے مارچ 2023 میں ایران کے ساتھ طے پانے والے مشترکہ بیان کے تمام پہلوؤں پر بات چیت کی۔ ایرانی جوہری توانائی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی اور تکنیکی ماہرین کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔ اس دورے کے دوران گروسی نے ایران کے دو اہم یورینیم افزودگی مراکز نطنز اور فردو کا معائنہ بھی کیا تھا۔
گروسی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ آئی اے ای اے اور ایران کے درمیان تعاون جاری رہے گا۔ اس کا مقصد ایران کی افزودگی سرگرمیوں کی نگرانی اور تکنیکی توثیق کے ذریعے مزید پیشرفت کو یقینی بنانا ہے۔ گروسی کے اس دورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اور IAEA کے درمیان تعاون اور مذاکرات جاری ہیں۔
ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے وظائف پر پوری طرح عمل کیا جس کی عالمی ادارے نے بھی تصدیق کی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ فیصلے کے تحت امریکہ کو معاہدے سے خارج کردیا۔ جوبائیڈن نے ٹرمپ کے اس اقدام کی مذمت کی لیکن صدر بننے کے بعد عملی طور اسی پالیسی کو جاری رکھا۔ سیاسی بیانات پر اکتفا کرتے ہوئے وائٹ ہاوس نے معاہدے پر دوبارہ شمولیت کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔
اس کے بعد ایران اور معاہدے کے دوسرے فریقوں کے درمیان ویانا میں مذاکرات کے کئی دور ہوئے۔ امریکہ نے بھی بالواسطہ طور پر شرکت کی لیکن واشنگٹن کے نامعقول مطالبات کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے۔ عالمی ادارے کے سربراہ کے بیانات اس بات کی دلیل ہیں کہ ادارے کی رپورٹ ایک سیاسی عمل ہے جس کا تیکنیکی لحاظ سے کوئی فائدہ نہیں۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہر فواد ایزدی نے رافائل گروسی کے حالیہ بیانات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گروسی کے بیانات صرف تکنیکی نہیں بلکہ مکمل طور پر سیاسی ہیں اور وہ اسرائیل کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
ایزدی نے انکشاف کیا کہ گروسی اکثر ایران آنے سے پہلے اسرائیل کا دورہ کرتے ہیں اور وہاں کے حکام سے ہدایات لے کر ایران کے خلاف بیانات جاری کرتے ہیں۔ گروسی کی باتیں ان کی اپنی نہیں بلکہ پہلے سے تیار شدہ اسکرپٹ ہیں، جن کا مقصد مذاکرات کی فضا کو ایران کے خلاف موڑنا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جوہری معاہدے سے امریکہ نے خود کو یکطرفہ طور پر الگ کیا اور یورپی ممالک نے بھی اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔
ایزدی نے نشاندہی کی کہ امریکہ اور اسرائیل اس بات سے آگاہ ہیں کہ ایران میں مذاکرات کے حق اور مخالفت میں مضبوط لابی موجود ہے۔ وہ اس صورتحال کو مزید خراب کرنے کے لیے بیانات اور دباؤ کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ مذاکرات کے مسئلے کو ایران کے اندر مزید تنازع کا ذریعہ بنایا جاسکے۔
ایران نے ہر موقع پر سفارتی طریقے سے اپنے مطالبات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں یورپی ممالک کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں تاکہ پابندیوں کے خاتمے اور تناؤ کو کم کرنے کے لیے راہیں تلاش کی جاسکیں۔ اب تک مذاکرات کے تین دور ہوچکے ہیں اور فریقین کوشش کررہے ہیں کہ سفارتی عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔