آئین، جمہوریت اور حکمرانوں کا طرز عمل – جشن جمہوریہ کے ساتھ آئین ہند کے تحفظ کا بھی عہد کریں

تحریر:سید سرفراز احمد

 

اس وقت ہمارا ملک 76ویں یوم جمہوریہ کی رنگا رنگی تقاریب منانے جارہا ہے ملک کے الگ الگ گوشوں میں جمہوری اقدار کے گیت بجائے جائیں گے اور جمہوریت کی شان میں ایک طبقہ سچے گیت گاۓ گا اور ایک طبقے کی جانب سے بناوٹی قصیدے پڑھے جائیں گے اور ملک کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جاۓ گی کہ یہ ملک جمہوری اقدار کے بناء اپاہج ہوجاۓ گا اور سینہ ٹھوک کر کہا جاۓ گا کہ ہمارا ملک دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے یقیناً اس بات میں کوئی شک بھی نہیں ہے لیکن کیا صرف دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک بن جانا ہی کافی ہے؟یا پھر دنیا کےسب سے بڑے جمہوری ملک کا اعزاز پانا کافی ہے؟کیا دستور پر صد فیصد عمل آواری ضروری نہیں ہے؟کیا اس ملک کے تمام مذاہب کو اعتماد میں لینا حکمرانوں کی دستوری زمہ داری نہیں ہے؟ان سب سوالوں پر ہم بحث کریں گے لیکن قبل اس کے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ جمہوریت کیا ہے؟ اس کی اہمیت و فادیت کیوں ہے؟ اور اس کو مٹانے کی آہستہ آہستہ کیسی سازشیں کی جارہی ہے اس موقع پر ان سب کا احاطہ کرنا ناگزیر ہے۔

 

ہر سال 26 جنوری کا دن آتا ہے اور بڑے ہی تزک و احتشام سے جشن منایا جاتا ہے اور پھر یہ دن بھی گذر جاتا ہے اس بات سے بالکل بھی انکار نہیں ہے کہ بابا صاحب ڈاکٹر امبیڈ کر نے اس ملک کے دستور کو مرتب کرنے میں سب سے فعال کردار ادا کیا یقیناً یہ دستورملک کے حال اور مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوۓ تحریر کیا گیا تھا تاکہ اس ہمہ مذاہب والے چمن میں فرقہ پرستی کی آگ نہ لگے بلکہ یہ وطن عزیز سدا گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ بنا رہے جس میں مختلیف مذاہب و طبقات کو مد نظر رکھتے ہوۓ ان کے اپنے اپنے حقوق دیئے گئے قبائلی و اقلیتی طبقات کو ان کے اپنے حقوق دیئے گئے اسی طرح بھارت کا یہ دستور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مساویانہ حقوق فراہم کرتا ہے آج ہمارا ملک 76 ویں جشن جمہوریہ منارہا ہے جب کہ 65 سالوں تک اس دستور سے کسی بھی طبقہ کو گھٹن نہیں ہوئی تھی اگر کسی کو ہوتی بھی رہی ہوگی لیکن کبھی آشکار نہیں ہوئی لیکن اب جشن جمہوریہ میں بھی ہر سال طرفہ تماشہ ہوتا ہے ملک کا ایک بڑا گوشہ اس ملک کے دستور کو مانتا بھی ہے اور اس کی مکمل پاس داری بھی کرتا ہے وہیں ایک اور گوشہ بظاہر دستور کو مانتا ہے لیکن غیر محسوس طریقے سے اس کی نفی بھی کرتا ہے اور اس دستور کو تعصب بھری نگاہ سے دیکھتا ہے۔

 

جب یہ ملک انگریزوں کی گرفت میں تھا جن سے آزاد کروانے کے لیئے اس ملک کے مجاہدین آزادی نے اپنی ناقابل فراموش قربانیوں کو پیش کیا حتیٰ کے جانوں کا نذارانہ بھی پیش کیا اور تب جا کر یہ ملک 15 اگسٹ 1947 کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد مملکت بن کر نمو دار ہوا آزاد ہند کے بعد یہ مسئلہ درپیش تھا کہ ایک تکثیری ملک کی رعایا کو امن کے ساتھ کیسے رکھا جاۓ؟ تب ہی اس ملک کی دستور ساز اسمبلی نے نومبر 1949 کو 1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کو منسوخ کرتے ہوۓ ایک نیا اور دنیا کا سب سے طویل تحریری دستور کو ملک کے سامنے پیش کیا جس کو نہ صرف بھارت بلکہ پوری دنیا کے ممالک یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوۓ کہ بھارت کا آئین سب سے مستحکم ہے اس آئین کو 26 جنوری 1950 کو باضابطہ طور پر ملک میں نافذالعمل کردیا گیا اسی دن سے ہمارا ملک دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک بن گیا یہی وہ موقع ہے جس پر ہم ہر سال یوم جمہوریہ کا جش مناتے ہیں۔

 

آج ہم اس ملک کی آزادی اور دستور کے نفاذ کی نویں دہائی میں قدم رکھ چکے ہیں لیکن نہ کبھی مذہبی، لسانی ،ذات پات، یا نسلی بنیاد پر امتیاز نہیں کیا جاتا رہا اگر کبھی ایسا ہوتا بھی ہے تو قانون کی رو سے وہ مجرم بن جاتا ہے اور اپنے کیئے کی سزا بھگتنا پڑتا ہے تب ہی اس دستور کی جڑیں مضبوط ہونے کی بناء پر یہاں تمام مذاہب کے افراد چین کی زندگی گذارتے رہے اسی بناء پر اس ملک کو ایک سیکولر ملک قرار دیا گیا جس کا مفہوم یہی ہے کہ ملک ہو یا ریاست جس کا کوئی مذہب نہیں ہوگا اور نہ ہی مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک کیا جاسکتا آئین کی روح میں اس ملک کا ہر شہری خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو جس میں نہ کوئی بڑا نہ چھوٹا نہ سیاست داں نہ ہی عام شہری بلکہ یہ سب دستور کی نظر میں مساوی ہونگے اور یہی دستور سب کو یکساں اختیارات بھی فراہم کرتا ہے جس میں اظہار راۓ کی آزادی اور اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق بھی حاصل ہے۔

 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جتنی آزادی اور حقوق اس ملک کا دستور دیتا ہے کیا وہی آزادی اور وہی حقوق آج کے شہری کو اس نئے بھارت میں حاصل ہورہے ہیں؟یہ وہ موقع ہے کہ ہم اس ملک کے دستور اور موجودہ حکمرانوں کے طرز عمل پر چند مخصوص پہلوؤں پر غور کرنا ناگزیر ہے سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت ملک کے شہریوں کو آزادی اور مساوات کا حق حاصل ہورہا ہے؟کیا ہماری حکومتیں ملک اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہے یا ناکام ؟اس کے علاوہ دو اور سوالات جس پر اس ملک کی رعایا کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ایک تو یہ کہ کیا موجودہ حکمرانوں کے ہندوتوا نظریات اور آئین ہند دونوں یکساں ہے؟کیا اس ملک کی عوام آئین کا تحفظ کرنا چاہتی ہے یا اس تکثیری سماج کو کسی ایک مذہبی نظریات کے حوالے کرنا چاہتی ہے؟آپ کے جوابات جو بھی ہوں لیکن دستور کی رو سے اس ملک پر کسی ایک مذہبی نظریات کو ہرگز نافذ نہیں کیا جاسکتا آج جو ہندوتوا نظریہ کو نافذ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے یہ ایک مذہبی تصادم ہے جس سے ملک کا امن غارت ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا ہندوتوا نظریات نہ ہی سناتن ہندو دھرم کی پیروی کرتا ہے نہ ہی دستور کی روح میں کھرا اترتا ہے یہ ایک متشدد راستہ ہے جو اس تکثیری سماج میں افرا تفری پھیلا کر ہندو راشٹر کی تکمیل میں مگن ہے۔

 

جس دستور نے جو آزادی اور حقوق دیئے ہیں آج کے دور کے حکمران پچھلے گیارہ سالوں سے اس آزادی اور حقوق کو سلب کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کررہے ہیں خاص طور پر اقلیتوں سے امتیازی سلوک کا گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے جنھیں نہ اس ملک کے مفادات کی فکر ہے نہ ہی عوامی مفادات و تحفظ کی فکر ہے جو صرف اپنی سیاست کو گرم رکھنے اور کسی بھی طرح اس ملک کے آئین کو ختم کرنے کی سازشیں کررہے ہیں جس کے پیچھے اہم مقصد یہی ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا اقلیتی طبقہ مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کرتے ہوۓ انھیں یا تو ملک سے باہر بھیجنے کی تیاری میں ہےیا پھر ثانوی درجہ میں ڈھکیل کر اپنے ماتحت بناکر رکھنا چاہتا ہےچونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندو راشٹر کے راستے کا اصل کانٹا اس ملک کا مسلمان ہے جو اس راستے سے صاف کرنا چاہتے ہیں جب کہ اس ملک کے مسلمانوں کے آبا و اجداد و اسلاف نے اس مادر وطن کی کوک میں جنم لیا اور اس وطن عزیز کی آزادی کی خاطر شہادتوں کے ڈھیر بناتے ہوۓ اس ارض پاک کو اپنے لہو سے سرخ رنگ میں تبدیل کیا اس سے بھی اہم نکتہ یہ ہے کہ یہاں کے مسلمانوں نے آزادی کے دوران بجاۓ ہجرت کے اس ملک میں رہنا پسند کیا لیکن آج ان ہی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جارہا ہے طرح طرح کی سازشیں رچی جارہی ہے ذہنی املاکی شرعی مصائب میں ڈال کر آمریت کو مضبوط بنایا جارہا ہےحالانکہ جو ایسا کررہے ہیں ان کا اپنا ذہن اور ان کے آبا واجداد کے کارنامے مشکوک دائرے کار میں آتے ہیں جن کے اوپر خود غداری کا ٹھپہ لگا ہوا ہے تو پھر ایسے گروہ کے لیئے اس ملک کی جمہوریت اور آئین چہ معنی دارد؟

 

اوپر جو دو سوالات پیش کیئے گئے ان میں پہلا سوال ہے کیا آئین ہند اور ہندو توا نظریات دونوں یکساں ہے؟اس امتیاز کو ملک کے اکثریتی طبقہ کو اس طرح سمجھایا جاسکتا ہے کہ جس دستور کو اس ملک کے بزرگوں نے ترتیب دیا تھا اس دستور میں کسی بھی مذہب کے ساتھ امتیازی برتاؤ نہیں کیا گیا سب کو یکساں آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل پیرا بن کر اپنے مذہب کی تبلیغ کرسکتا ہے اپنے اپنے رسم و رواج کو بحسن خوبی انجام دے سکتا ہے اور اظہار راۓ کی آزادی کا بھر پور حق بھی حاصل ہے اگر کسی ایک مذہبی وہ بھی متشدد راستے سے اس ملک کے تمام مذاہب پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاۓ گی تو اس میں کسی ایک مذہب کا نقصان نہیں بلکہ پورے ملک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے اور اس ملک کا امن چین و سکون تباہ و برباد ہوجاۓ گا غرض یہ کہ ایک غیر آئینی راہ کی تباہی انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات ہی نہیں بلکہ ملکی سطح کے تمام شعبہ جات سے گھاٹے کا سودا کرنے کے مترادف ہی کہلاۓ گا ملک کے اکثریتی طبقہ کو دوسری بات یہ سمجھائی جاۓ کہ جس طرح سات دہائیوں سے زائد وقت سے ہم اس وطن عزیز میں جس اتحاد کے ساتھ چین و سکون کی زندگی گذارتے آۓ ہیں اس ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوۓ آئندہ کی زندگی بھی خوش گوار طریقے بسر کرسکتے ہیں جو آنے والی نسلوں کی خوش حالی کابھی باعث بن سکتا ہے لیکن شرط ہے کہ اس ملک کے آئین کے تحفظ کے لیئے ملک کی اکثریتی آبادی کو متحد ہونا پڑے گا۔

 

آخری اور اہم پہلو پر ہم گفتگو کریں گے کہ یوم جمہوریہ کے موقع پر ہم تاریخی پہیلیوں کی بات کرکے جمہوریت کا تذکرہ تو کرسکتے ہیں لیکن اسے طاقتور نہیں بنا سکتے جن قائدین نے دستور کو ترتیب دیا انھوں نے اپنے حصے کی شمع روشن کردی تھی آج اگر اسی دستور کو ہم لامحدود وقت تک دیکھنا چاہتے ہیں اور اسے کمزور کرنے کے بجاۓ مزید مستحکم کرنا چاہتے ہوں تو اس دستور کے تحفظ کے لیئے اٹھ کھڑے ہونا ہوگا اور اس کے محافظ بننا پڑے گا تب جاکر یہ دستور طاقتور کا روپ اختیار کرسکتا ہے آج کے موجودہ بھارت میں جمہوریت جس شاہراہ پر کھڑی ہے وہ ایک غضب ناک صورت حال ہے ہر طرف آمریت کا تانا بانا چل رہا ہے اس سنگین صورت حال میں اگر کوئی دستور کے تحفظ کی بات کررہا ہوتو ہر بھارتی شہری کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس کے شانہ بہ شانہ کھڑا رہے بس یوں سمجھ لیں کہ موجودہ بھارت کے سماج کا مقابلہ جمہوریت اور آمریت کے مابین ہے اگر آج اس آمریت کے خاتمہ کے لیئے مشترکہ جدوجہد نہیں کی جاۓ گی تو کل آپ کی راہ میں بھی پتھر ڈالے جائیں گے اگر آج آپ مظلوموں کا ساتھ دیں گے تو یہی مظلوم کل آپ کی مجبوری میں آپ کی آوز بنیں گے اس جشن جمہوریہ کے موقع پر ہم جس شایان شان سے جمہوریت کا جشن منارہے ہیں ٹھیک اسی طرح اس ملک کی جمہوریت کو بچانے کا بھی عہد کریں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *