مہر خبررساں ایجنسی، دین و عقیدہ ڈیسک:حضرت زینب کبری (س) کا مقام عرفان اور توحید میں اس قدر بلند تھا کہ یہ مقام امامت کے قریب تر دکھائی دیتا ہے۔ آپ اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی طرح راتوں کو عبادت اور تہجد میں مشغول رہتی تھیں۔ یہاں تک کہ کربلا کی گیارہویں شب بھی آپ کی نماز شب اور تہجد ترک نہ ہوئی۔
15 رجب المرجب، حضرت زینب کبری (س) کی رحلت کا دن ہے۔ حضرت زینب کبری (س) اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کے بعد دنیا کی سب سے عظیم خاتون تھیں۔ آپ انتہائی معزز، علم و فضیلت میں نمایاں اور شجاعت میں دنیا کے بہادر ترین افراد پر فوقیت رکھتی تھیں۔
آپ نے زہد و تقویٰ کو اپنی زندگی کا شعار بنایا، اللہ کو ہمیشہ یاد رکھا اور اخلاقی و روحانی کمالات سے اپنی شخصیت کو آراستہ کیا۔ آپ کا حسب و نسب پاکیزہ تھا۔ آپ عفت و عصمت کی روشن مثال تھیں۔ آپ فصاحت و بلاغت میں اپنے والد حضرت علی (ع) کی مانند اور عفت و عصمت میں اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہرا (س) جیسی تھیں۔
آپ کے خطبات اور بیانات لوگوں کو حیرت میں ڈالتے تھے۔ کوفہ اور شام میں آپ کے خطبوں نے دربار میں موجود افراد اور عوام پر بہت اثر کیا۔ آپ نے اپنے فصیح و بلیغ خطبوں کے ذریعے عوام کو خاندان نبوت کی عظمت اور بنی امیہ کے جرائم سے آگاہ کیا۔ آپ کے خطبات، جو ان کے والد بزرگوار حضرت علی (ع) کے کلام کی طرح اعلی فصاحت و بلاغت کے حامل تھے، تاریخ کے سنہرے صفحات پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہوگئے۔ یہ کلمات تاریخ میں اہل بیت کے پیروکاروں کے لیے روشن چراغ بن گئے۔
ملّا محمد تقی برغانی، المعروف شہید ثالث، اپنی کتاب “مجالس المتقین” میں لکھتے ہیں: “حضرت زینب کا عرفان اور توحید کے مراتب، مقام امامت کے قریب تھے۔”
حضرت زینب علیہا السلام وقار اور متانت میں حضرت خدیجہ کبری (س) کی طرح، عصمت اور حیاء میں اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی وارث، فصاحت و بلاغت میں اپنے والد حضرت علی (ع) کی مانند، حلم اور صبر میں حضرت امام حسن (ع) کی مثال اور شجاعت و بہادری میں اپنے بھائی حضرت امام حسین (ع) کے مشابہ تھیں۔
حضرت زینب (س) اپنی غیر معمولی اور بے مثال بصیرت کے سبب اس مقام پر پہنچیں کہ امام حسین (ع) نے آخری وداع میں خاندان کی نگرانی اور شرعی امور کی ذمہ داری ان کے سپرد کی اور دوسروں کو ہدایت دی کہ دینی مسائل میں ان سے رجوع کریں۔
امام زین العابدین (ع) نے انہیں “عالِمہ غیر معَلَّمہ” کے اعلی لقب سے نوازا، یعنی وہ علم جو کسی عام استاد سے حاصل نہ کیا گیا ہو۔ آپ کی پیدائش کے وقت حضرت جبرائیل (ع) نبی کریم (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے مبارکباد پیش کی، اور فرمایا کہ اس بچی کا نام زینب رکھیں کیونکہ یہ نام لوح محفوظ میں پہلے سے درج ہے۔
حضرت زینب (س) اپنی والدہ کی طرح راتوں کو عبادت اور تہجد میں مشغول رہتیں یہاں تک کہ شب عاشور بھی ان کی نماز شب اور تہجد ترک نہ ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ امام حسین (ع) نے روزِ عاشور فرمایا: “بہن! نماز شب کے قنوت میں مجھے نہ بھولنا۔”
حضرت امام حسین (ع) اور ان کے وفادار ساتھیوں کی شہادت کے بعد اہل بیت (ع) کی اسیری کا مرحلہ پیش آیا۔ اس دوران حضرت زینب (س) نے اپنے خطبوں کے ذریعے نہ صرف واقعہ عاشورا کو زندہ رکھا بلکہ خطبہ فدکیہ کی یاد تازہ کردی۔
حضرت زینب (س) نے کوفہ کے لوگوں کے دوغلے رویے اور ان کی بدلتی ہوئی شخصیت کو بے نقاب کیا، جو ظلم و جور کی حکومت کے زیر اثر تبدیل ہوچکے تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کس طرح دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے کوفیوں نے آخرت کو قربان کیا اور حق کو پہچاننے کے باوجود اس کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ آپ نے اپنی فصاحت اور گہری بصیرت سے ان کے کردار کی حقیقت کو بیان کیا اور ان کے دنیا پرست رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
جب دشمن خاندان اہل بیت (ع) کے اسیروں کو لے کر کوفہ پہنچے تو لوگوں نے خاندان رسالت کو دیکھ کر گریہ و زاری شروع کردی۔ حضرت زینب (س) یہ منظر برداشت نہ کرسکیں۔ وہ لوگ جو کبھی ان کے والد حضرت علی (ع) اور بھائی امام حسن (ع) کے ساتھ خیانت کرچکے تھے اور جنہوں نے امام حسین (ع) کے خلاف تلوار اٹھائی تھی، اب ان پر آنسو بہا رہے تھے۔
اس موقع پر حضرت زینب (س) نے سخت الفاظ میں فرمایا: “خاموش ہو جاؤ!” یہ کلمات ان کے منافقانہ رویے اور بے حسی پر طمانچہ تھے۔
حضرت زینب کبری (س) نے کربلا کے دلخراش واقعے میں اپنے بھائی امام حسین (ع)، اپنے بیٹوں اور عزیزوں کی شہادت کی شدید مصیبتیں برداشت کیں مگر اس کے باوجود انہوں نے صبر و استقامت کا دامن تھاما اور واقعہ کربلا کی حقیقت کو لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا۔ انہوں نے مسلمانوں اور اہل بیت (ع) کے دوستوں کو عاشورا کی حقیقت سے آگاہ کیا اور ان کے دلوں میں حق کی روشنی ڈالی۔ اس کے بعد حضرت زینب (س) مدینہ واپس تشریف لائیں۔
حضرت علی علیہ السلام کی شیردل بیٹی نے پوری زندگی ظالم حکمرانوں کے خلاف جہاد کیا اور ۵۷ سال کی عمر میں انتقال فرما گئیں۔