ایران اپنے دوستوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ ایران کی سیاسی حکمت عملی اور پالیسی خاص طور پر عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی پاسداری پراگماتزم پر مبنی نہیں بلکہ اسلامی اصول اور اعلی اخلاقی اقدار پر مبنی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا وعدوں کی پاسداری کرو، بے شک وعدوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

شہید مقاومت سید حسن نصر اللہ اس اسلامی اصول کو یوں بیان کرتے ہیں کہ ہم سچائی، وفاداری اور اپنے موقف پر قائم رہنے والے لوگ ہیں۔ ہم ایسے ہی تھے اور ایسے ہی رہیں گے۔

اسلامی حکومت کا طریقہ کار صداقت پر مبنی ہے۔ یہ صداقت اسلام اور ایران کے اسلامی نظام حکومت کی طاقت کا ایک اہم راز ہے۔ ایران کی حکومت کی یہ صاف گوئی اور سچائی اتنی واضح ہے کہ کوئی بھی، چاہے وہ ایک ملک ہو یا فرد یہ تصور نہیں کر سکتا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کسی کے ساتھ خیانت کرے گا یا اسے تنہا چھوڑ دے گا۔

علاوہ ازین اسلامی جمہوریہ ایران امت مسلمہ کے دشمنوں کے ساتھ سازباز یا مصلحت کا قائل نہیں ہے جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل کی آیات 74 اور 75 میں ارشاد باری تعالی ہے: وَلَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاکَ لَقَدْ کِدْتَ تَرْکَنُ إِلَیْهِمْ شَیْئًا قَلِیلًا*إِذًا لَأَذَقْنَاکَ ضِعْفَ الْحَیَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیرًا 

اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو بلاشبہ آپ کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ہوجاتے۔

اس صورت میں ہم آپ کو زندگی میں بھی دوہرا عذاب اور آخرت میں بھی دوہرا عذاب چکھا دیتے پھر آپ ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار نہ پاتے۔

اس آیت کی روشنی میں اسلامی رہنماؤں کے تمام فیصلے اور اقدامات اسلامی اقدار کے عین مطابق ہوتے ہیں۔

سنہ 1980 کی دہائی میں سابق سوویت یونین کے وزیر خارجہ، ایڈورڈ شوارڈنادزے ایران کے دورے پر آئے اور امام خمینی کے لیے ایک خط لائے۔ امام خمینی نے یہ خط لینے سے انکار کیا اور ملاقات کے کمرے سے باہر چلے گئے جبکہ مہمان کو کمرے میں چھوڑ دیا۔ یہ اقدام مہمان کی بے عزتی کے لیے نہیں تھا بلکہ اس لیے تھا کہ امام خط کے مواد سے آگاہ تھے، جس میں اسلامی اقدار سے پیچھے ہٹنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

امام خمینی نے اپنے اس عمل سے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ دین اور اسلامی اقدار کی حفاظت کے لیے ایسے وفود اور پیغامات کو نظرانداز کر دیا جائے گا۔ انہوں نے سوویت یونین کے اس پیغام کا جواب میڈیا کے ذریعے دیا اور فرمایا کہ آج کے بعد کمیونزم کو دنیا کی سیاسی تاریخ کے عجائب گھروں میں تلاش کرنا ہوگا!

اور حقیقت میں سوویت یونین اور مارکسزم کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ واقعہ دنیا کے لیے ایک سبق بن گیا۔

اسی سیرت پر عمل کرتے ہوئے 2019 میں رہبر معظم خامنہ‌ای نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیغام لینے سے انکار کیا، جو جاپان کے وزیراعظم شنزو آبے کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں ٹرمپ کو کسی پیغام کے تبادلے کے لائق نہیں سمجھتا اور نہ ہی اسے کوئی جواب دوں گا!

یہی اسلامی طریقہ ہے۔ جب ایران میں شہید اسماعیل ہنیہ کو قتل کیا گیا، تو آیت اللہ العظمی خامنہ‌ای نے ان کے خون کا بدلہ لینے پر زور دیا کیونکہ اسلام اپنے مہمانوں کی حفاظت کرتا ہے اور مسلمانوں کے خون کی حرمت کا قائل ہے۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی پوری تاریخ اور مختلف ملکوں کے ساتھ اس کے تعلقات اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ صداقت پر مبنی ہیں۔ یہی صداقت اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اس کے تسلسل کی ایک بڑی وجہ ہے۔

اسلام دوسروں کے ساتھ تعلقات اور ان کے احترام کو اہمیت دیتا ہے چاہے وہ عوام پر کمرانی ہو یا بین الاقوامی تعلقات۔ یہ اصول امام علیؑ کے اس قول میں واضح طور پر بیان ہوا ہے جو انہوں نے مصر کے گورنر مالک اشتر کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا: “لوگ دو طرح کے ہیں: یا تمہارے دینی بھائی ہیں، یا تمہاری طرح مخلوق ہونے میں شریک ہیں۔

اس ہدایت کی روشنی میں ایک مسلمان حاکم ہر قوم، مذہب یا شکل و صورت کے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مزید برآں اسلام خیانت کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورہ انفال کی آیت 58 میں فرماتا ہے: «إِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ الْخَائِنِینَ» “بے شک اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔” لہٰذا ایک مسلمان کسی بھی حالت یا وجہ سے خیانت نہیں کر سکتا۔

امریکہ اور مغربی ممالک نے کئی بار کوشش کی کہ ایران کو مختلف مراعات کے ذریعے خطے کی مقاومتی تنظیموں کے ساتھ تعاون سے روک دیں۔ ان مطالبات کے جواب میں رہبر معظم نے فرمایا کہ خطے کے معاملات میں ہماری موجودگی ہماری اسٹریٹجک حکمت عملی کا حصہ ہے؛ یہ ہمارے نظام کی مضبوطی کا ذریعہ ہے، ہماری طاقت کا وسیلہ ہے؛ ہم یہ کیسے کھوسکتے ہیں؟”
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ محض پابندیوں سے بچنے کے لیے امریکہ یا کسی بھی طاقت کے سامنے پسپائی اختیار کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہوگی اور یہ سیاسی طاقت کو نقصان پہنچائے گا۔

اگرچہ ایران پر شدید اقتصادی پابندیاں عائد ہیں، اس کے باوجود ایران نے عراق، لبنان، یمن، فلسطین اور شام میں تمام مقاومتی گروہوں کی حمایت جاری رکھی ہے۔ یہ حمایت خطرات سے بھرپور ہے کیونکہ یہ عالمی استکبار کے مفادات کے خلاف ہے۔ جب بھی عالمی ذرائع ابلاغ میں مقاومتی تنطیموں کی کاروائیوں کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ایران کا نام آتا ہے۔ تمام مقاومتی تنظیمیں بھی ایران کی حمایت کا کھل کر اعتراف کرتی ہیں۔

ایران کی یہ حمایت عملی شکل اختیار کرتے ہوئے اسلحہ، میزائل، طیارے اور توپوں کی صورت میں صہیونی حکومت کے خلاف استعمال ہوتے ہیں تو کسی کو اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے کہ ایران کبھی اپنے وعدوں سے منحرف ہو جائے گا یا مزاحمت سے ہاتھ کھینچ لے گا۔ ایران فلسطینیوں کی حمایت کے عہد پر قائم ہے۔

شام کے حالیہ واقعات کے بعد بعض ذرائع ابلاغ کے اداروں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے بشار الاسد کا ساتھ چھوڑ دیا ہے اور حالیہ واقعات میں دمشق میں اس کی مدد نہیں کی۔ یہ محض ایک پروپیگنڈا ہے کیونکہ شام میں حکومت کی تبدیلی ایران اور حزب اللہ کے مفاد میں نہیں ہے۔ بشار الاسد اور ان کی حکومت ہمیشہ مقاومت اور حزب اللہ کی حامی تھی۔

مغرب کی سخت پابندیوں کے باوجود بشار الاسد نے اس پالیسی کو برقرار رکھا۔ بشار الاسد نے کبھی بھی سازشی ریاستوں اور اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی ایران کی حمایت سے دستبردار ہوا۔

دوسری جانب ایران نے بشار الاسد کو آستانہ مذاکرات کے تحت اپوزیشن گروپوں کو حکومت میں شامل کرنے کا مشورہ دیا تھا، لیکن بشار الاسد کا خیال تھا کہ اپوزیشن میں کوئی شخص حکومت میں شامل ہونے کے لائق نہیں ہے۔

اس کے باوجود بشار الاسد کی جانب سے ابھی تک کوئی ایسا بیان نہیں آیا جس سے یہ ثابت ہو کہ ایران نے کبھی اس کی حمایت چھوڑ دی ہو۔

یہ بات واضح ہے کہ شام میں آنے والی حالیہ تبدیلیاں امریکہ، اسرائیل اور ترکی کی سازشوں کا نتیجہ ہیں جو خطے میں اسرائیل اور امریکہ کے مفاد میں تبدیلیاں لانے کے لیے کی گئیں۔

جہاں دشمن امت مسلمہ کے خلاف منصوبہ بندی کررہا ہے وہاں مقاومتی محاذ اپنے مورچوں کو نہیں چھوڑ رہا ہے۔ مقاومت کی طاقت دشمن صہیونیوں کے وسائل سے کہیں زیادہ ہے، جو ایک سال سے زیادہ وقت تک مزاحمت سے شکست کھا چکے ہیں۔ ایران تمام مشکلات کے باوجود اس مرحلے پر بھی اپنے دوستوں کو تنہا نہیں چھوڑے گا۔ چنانچہ سید شہداء مقاومت شہید سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ “ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک سچا، وفادار اور قابل اعتماد دوست ہے چاہے حالات کتنے بھی مشکل ہوں، وہ اپنے دوستوں کو اکیلا نہیں چھوڑتا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *