[]
مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک – نفیسہ عبدالہی: آزادی قربانی مانگتی ہے اور مزاحمت یہ قیمت چکا کر آزادی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ بعض سیاسی گروہ آزادی کی قیمت کے بہانے سمجھوتہ کرنا چاہتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ آخر استقلال کی قیمت کیوں ادا کی جائے؟!
یقیناً یہی گروہ دوسروں پر انحصار کرنے والے ممالک کی ذلت کا ذکر تک نہیں کرتے جو آزادی نہیں رکھتے۔
ہو سکتا ہے کہ ان کے گاڈ فادرز، یعنی عالمی صیہونی دجالیت کے تھنک ٹینکس نے ان سے کہا ہے کہ وہ اتنے اہم مسئلے کو دوسرے مرحلے سے شروع کریں اور یہ کہیں کہ مثال کے طور پر مصر اور جنوبی کوریا تو سیاسی آزادی نہیں رکھتے، آخر کونسا نقصان اٹھایا ہے؟!
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پہلا (مصر) جمال عبدالناصر کے بعد، اب بھی ایک سیاسی فرد کے ہاتھوں گرفتار ہے جب کہ دوسرے (جنوبی کوریا) کو سوئی تک کی خریداری کے لئے اپنے آقاوں سے ” اجازت” کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ تسلط پسند نظام کے ڈھانچے میں یہ طبیعی بات ہے، آزادی کا حصول اور اسے برقرار رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے، کیونکہ اگر اتنا آسان ہوتا تو کینیڈا اور آسٹریلیا اب بھی برطانوی کالونیاں نہ ہوتے، یا عرب بادشاہ اپنے تخت و تاج کے لئے مغرب کے لیے دم نہ ہلاتے۔
ایسے بین الاقوامی ڈھانچے میں بعض ممالک نے مزاحمت کے ذریعے آزادی کے حصول کا راستہ اختیار کیا ہے اور روز بروز مضبوط ہوتے جا رہے ہیں جس کی ٹھوس مثال اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔
مزاحمتی محور کے ممالک بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی مادی اور روحانی حمایت سے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔ یقیناً اس راستے میں نشیب و فراز ہیں۔
یقینا مزاحمت ان دنوں شام میں لگی آتش نفرت کی خاکستر سے ایک دن ضرور انگڑائی لے گی، شامی عوام ان دنوں اپنے ملک کے سابقہ حکام کی امریکی اور صیہونی مشترکہ منصوبہ بندی سے غفلت اور لاپرواہی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں، ملک کے غیرت مند نوجوانوں ایک بار پھر اپنے ملک کو دشمن کے چنگل سے آزاد کرائیں گے۔
پرچم بدلنے سے لوگوں کی توقعات پوری نہیں ہوں گی
ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے لبنانی اخبار “الاخبار” میں اپنی یادداشت میں اس بات پر زور دیا ہے کہ موجودہ حالات میں اسلامی دنیا کو شام اور فلسطین کے مستقبل کے بارے میں شدید تشویش لاحق ہے۔
شام سخت امتحان میں کے عنوان سے چھپنے والے مضمون میں عراقچی نے لکھا ہے کہ یہ علاقے صدیوں سے اسلامی دنیا کے سیاسی مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ حالیہ دہائیوں میں ان کی حاکمیت کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں انہیں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ یورپی سفارتکاروں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہیں اکثر یہ کہا جاتا تھا کہ جرمنی کے لوگ نازی حکومت کے ہاتھوں یورپی یہودیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے لیے شرمندہ اور خود کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ یہ مسلم ہے کہ نازیوں کے دور میں یورپ میں ہونے والے وحشیانہ مظالم نے دنیا بھر میں گہرے اثرات چھوڑے تاہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے جرائم کے لیے کون جوابدہ ہے؟ جس نے فلسطینیوں کی زمین کو قبضہ میں لے کر بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی کی اور فلسطین کے ہمسایہ ممالک کی خودمختاری کو بھی نشانہ بنایا۔
انہوں نے لکھا ہے کہ حالیہ اسرائیلی حملے، خاص طور پر 14 اکتوبر 2024 کو غزہ کے شهداء الاقصی ہسپتال پر ہونے والے حملے نسل کشی کا ایک جدید نمونہ ہے۔ اسرائیل کے یہ اقدامات عالمی سطح پر انسانیت کے لیے ایک شرمندگی کا باعث ہیں۔
سید عباس عراقچی نے اپنی یادداشت میں اسرائیل کے جنگی جرائم اور شام پر حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسی ریاست پر حملہ کرنے کا ذمہ دار کون ہے جو خود سخت حالات سے گزر رہی ہے اور حکومت کے خاتمے اور نئی حکومت کی تشکیل کے بحران کا سامنا کر رہی ہے؟ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے اقدامات کے بارے میں اظہار افسوس اور تشویش صرف الفاظ کی حد تک محدود ہیں، جو اکثر بے معنی لگتے ہیں۔
عراقچی نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینیوں اور دوسرے مظلوم لوگوں کے لیے مقاومت ہی واحد حل ہے۔ مقاومت اس خطے کے عوام کے دلوں میں صدیوں سے پنپتی آئی ہے اور ماں باپ نے اس کو اپنے بچوں کو منتقل کیا ہے۔
سید عباس عراقچی نے اپنی یادداشت میں مزید لکھا ہے کہ اگر ہم یہ تصور کریں کہ ایک ملک کے پرچم کا رنگ بدلتے ہی اس کے اجتماعی آرمان اور توقعات بھی پوری ہوں گی تو یہ ایک غلط فہمی ہوگی۔ شامی عوام وہی لوگ ہیں جنہوں نے 1973 کی جنگ میں مزاحمت کی تاریخ رقم کی۔ حالیہ واقعات کے باوجود شامی عوام اپنے اصولوں اور فلسطین کے حق میں اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں اور اس بات کو ثابت کیا کہ شامی عوام ابھی تک مزاحمت کی جدو جہد میں شریک ہیں۔
انہوں نے اپنی یادداشت میں مزید لکھا ہے کہ حالیہ واقعات شامی ریاست کی حاکمیت، سرحدی سالمیت اور ریاستی اداروں کے خاتمے کا سبب نہیں بننے چاہئیں بلکہ اس وقت شامی عوام کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔
عراقچی کے مطابق شام کی موجودہ صورتحال ایک سخت آزمائش سے کم نہیں ہے، جس میں دہشت گرد تنظیموں جیسے داعش اور القاعدہ کی سرگرمیاں، اسرائیل کی جارحیت، اور امریکی اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت شامل ہیں۔ ان تمام چیلنجز کے باوجود شام کے عوام کی مزاحمت اور استقامت قابل تعریف ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شام کی موجودہ مشکلات سے نجات کا واحد راستہ شامی عوام کی مکمل شمولیت کے ساتھ آزادانہ انتخابات ہے، جس میں تمام شہریوں کی رائے کو عزت دی جائے اور ایک ایسا سیاسی نظام تشکیل دیا جائے جو ملک کے تمام طبقوں کی نمائندگی کرے۔ یہ ایران کی خارجہ پالیسی کی بنیاد اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۲۵۴ کے مطابق ہے۔
مزاحمت کی جڑیں حالات کی تبدیلیوں سے ختم نہیں ہوں گی
کویت میں ایران کے سابق سفیر ‘رضا میرابیان’ نے مہر کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا: واقعات اور تبدیلیاں کبھی بھی مزاحمت کی جڑوں کو ختم نہیں کر سکتیں، اس کی مثال یمن میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اسرائیلی حکومت کا خیال تھا کہ یمن کی ریفائنری اور بندرگاہوں کو نشانہ بنا کر اسے تباہ کر سکتا ہے، لیکن گزشتہ رات کی کارروائی نے صیہونی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ اگر شام کی حکومت بدل جاتی ہے تو شام میں عوام کے صیہونیت مخالف جذبات ختم ہو جائیں گے۔ ابھی زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ شامی نوجوان اٹھ کھڑے ہوں گے اور گولان سے اسرائیل کا صفایا کریں گے۔
میرابیان نے مزید کہا کہ حزب اللہ مضبوطی سے ڈٹی ہوئی ہے اور اسرائیلی کو لبنان کی سرزمین کے اندر ایک انچ قدم رکھنے کی اجازت نہیں دیتی۔
یہ واقعات مزاحمتی تحریک پر اثر انداز تو ہوسکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ مزاحمت کا ہی خاتمہ ہوجائے یا مکمل طور پر غیر فعال ہوجائے، ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔