[]
“22 سال کا انتظار: ایک ماں کی واپسی کا دردناک سفر”
نئی دہلی۔ ایجنٹ کی دھوکہ دہی کی وجہ سے پچھلے 22 سال سے پاکستان میں پھنسی ہوئی ہندوستانی خاتون کی بالآخر ہندوستان واپسی ہوئی۔
حمیدہ بانونامی خاتون کے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا اور ان پر اپنے چار بچوں کی پرورش کی ذمہ داری تھی۔ انھوں نے خلیجی ممالک کا رخ کیا۔ وہ دوحہ، قطر، دبئی اور سعودی عرب میں پکوان کا کام کرتی تھیں۔ دن بھر کام کرتیں، ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے، لیکن ہر مہینے وہ اپنی کمائی کا ایک ایک پیسہ بچوں کو ہندوستان بھیج دیتی تھیں۔ ایک ماں کی محبت نے ان کے جسمانی درد کو بے معنی کر دیا تھا۔
لیکن ایک دن سال 2002 میں حمیدہ بانو نے سوچا کہ دبئی میں ایک بہتر موقع انہیں اور ان کے بچوں کو خوشحال بنا سکتا ہے۔ انہوں نے ایک ایجنٹ کو پیسے دیے جو انہیں دبئی لے جانے کا وعدہ کر رہا تھا۔ مگر وہ نہیں جانتی تھیں کہ یہ سفر ان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکہ بن جائے گا۔ایجنٹ نے انہیں دبئی کے بجائے پاکستان کے حیدرآباد پہنچا دیا۔
سرحدوں نے انہیں قید کر دیا۔ ویزا، دستاویزات اور شناخت کے بغیر وہ وہاں بے سہارا ہو گئیں۔ سال گزرتے گئے دن رات میں بدلتے رہے لیکن واپسی کا راستہ بند تھا۔ حمیدہ نے اپنے بچوں کی یاد میں بے شمار راتیں جاگ کر کاٹیں لیکن ہر روز امید کمزور ہوتی گئی۔“کیا میں اپنے بچوں کو کبھی دوبارہ دیکھ پاؤں گی؟” یہ سوال ان کے ذہن میں بار بار گونجتا۔
پھر سال 2022 میں ان کی زندگی میں ایک کرن روشن ہوئی۔ ایک یوٹیوبر ولی اللہ معروف نے اپنے بلاگ کے لیے ان سے رابطہ کیا۔ حمیدہ نے کیمرے کے سامنے اپنی کہانی سنائی، آنکھوں میں آنسو اور دل میں 22 سال کا بوجھ لیے۔ جب یہ ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہوا تو لوگ حیران رہ گئے۔ ان کے اہل خانہ نے یہ ویڈیو دیکھا اور انہیں یقین نہیں آیا کہ ان کی ماں بقید حیات ہیں اور کہیں دور ان کی راہ تک رہی ہیں۔
حمیدہ بانو کی واپسی کے لیے کوششیں شروع ہو گئیں۔ کاغذی کارروائیاں، سرکاری اجازت نامے اور غیر یقینی حالات کے باوجود اہل خانہ نے ہار نہیں مانی۔15 دسمبر 2024 کو وہ دن آیا جس کا انتظار حمیدا نے 22 سال تک کیا تھا۔ انہیں پاکستان کے کراچی سے لاہور لے جایا گیا، اور پھر واگھا سرحد کے راستے وہ ہندوستان کی سرزمین پر پہنچیں۔ جیسے ہی انہوں نے اپنی دھرتی کو قدموں تلے محسوس کیا ان کے آنسو تھم نہ سکے۔
75 سالہ حمیدہ بانو نے کہا “میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ دن آئے گا۔ میں نے امید چھوڑ دی تھی، لیکن خدا نے مجھے میرے بچوں سے ملایا۔”ان کے بچے انہیں دیکھتے ہی دوڑ کر گلے لگ گئے۔ وہ لمحہ ایسا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو، جیسے 22 سال کا فاصلہ پل بھر میں ختم ہو گیا ہو۔حمیدا بانو کی کہانی صرف ایک ماں کی قربانی نہیں ہے
بلکہ یہ ان تمام لوگوں کے لیے سبق ہے جو غیر قانونی ایجنٹس کے جھانسہ میں آ کر اپنا سب کچھ کھو دیتے ہیں۔ یہ کہانی امید، حوصلے اور ایک ماں کی محبت کی طاقت کا ثبوت ہے جو وقت اور سرحدوں کو شکست دے سکتی ہے۔