*پاراچنار کے معروضی حالات اور ہماری ذمہ داریاں*

*پاراچنار کے معروضی حالات اور ہماری ذمہ داریاں*

تحریر: منظوم ولایتی

وائس آف نیشن کے زیر اہتمام “پاراچنار کے معروضی حالات اور ہماری ذمہ داریاں” کے عنوان سے کل رات ایک آنلائن سیشن منعقد کیا گیا۔ جس سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکریٹری ایڈوکیٹ سید ناصر عباس شیرازی صاحب، نامور تجزیہ نگار قیصر عباس خان صاحب اور پاراچنار کے نامور عالم دین علامہ ساجد حسین طوری صاحب نے خطاب کیا۔

آنلائن سیشن کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت قاری علی مرتضی حیدری صاحب نے حاصل کی۔ بعد ازاں ایڈوکیٹ سید ناصر عباس شیرازی صاحب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاراچنار کی ایک خاص اسٹریٹجیکل حیثیت ہے بدقسمتی سے ہمارے اداروں نے بعض اندرونی اور کچھ بیرونی دباو کی وجہ سے وہاں کے حالات کو بہتر کرنے میں غفلت برتی ہے۔

سید ناصر عباس شیرازی صاحب کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ واقعہ نہایت ہی افسوسناک ہے اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے کہ سکیورٹی اداروں کے حصار میں نہتے مسافروں کو شہید کردیا جانا ہر گز قابل برداشت نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں شیرازی صاحب نے کہا کہ سانحہ کرم میں غفلت برتنے اور غیرسنجیدگی دکھانے پر ہم نے تو کہا ہے کہ وہاں کے وزیر اعلی علی امین گنڈاپور کو فورا استعفی دینا چاہیے۔
سیشن کے دوسرے مہمان سینیر تجزیہ نگار قیصر عباس خان نے کہا کہ پاراچنار میں ہر دفعہ جب بھی اس طرح کے فسادات ہوتے ہیں ذمینی تنازعہ کے مسائل بتاکر اصل حقائق کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے جو افسوسناک ہے۔
آپ نے ملت تشیع کے قائدین سے اپیل کی کہ وہ سانحہ کرم کے خلاف مل کر احتجاج کی طرف جائیں اور جس طرح سے کوئٹہ کے واقعات کے ردعمل میں شیعوں نے بھرپور احتجاج ریکارڈ کروا کر وہاں کے وزیراعلی کو گرایا تھا اِس وقت بھی یہی راہ حل ہے۔
ایک سوال کے جواب میں قیصر عباس خان صاحب کا کہنا تھا کہ کن بنیادوں اور شرایط پر ہماری دینی سیاسی جماعتوں کا دیگر سیاسی جماعتوں سے الحاق ہے یہ قوم کو بتایا جائے چونکہ شیعہ قوم اس وقت کل کے پاراچنار کے سانحہ کی وجہ سے شدید اضطراب کا شکار ہے۔

پاراچنار کے معروف عالم دین علامہ ساجد حسین طوری صاحب کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہم اپنے شہداء کو سڑکوں پر رکھ کر اے سی ڈی سی کے دفتر کے سامنے رکھ کر دھرتا دیتے تھے لیکن بدقسمتی سے جس کا کوئی دیرپا حل نہیں نکالا جاتا۔

علامہ ساجد طوری صاحب کا کہنا تھا کہ احتجاج سے پریشر میں آکر شارٹ ٹرم حل نکالا جاتا ہے ہمیں وہاں کے شیعہ اور سنی دونوں کو مل کر سوچنا ہوگا کہ آخر کب تک وہاں خون بہتا رہے گا۔ انجمن فاروقیہ کے سنجیدہ افراد کی جگہ پر غیرسنجیدہ لوگ آگئے ہیں جو شیعوں کے خلاف نفرتوں کو کم کرنے سے قاصر ہیں۔
آپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ شیعہ سنی ہر دو طرف جو لوگ فسادات چاہتے ہیں انہیں روکنا ہوگا اور وہاں کے سرکردہ افراد اور مشران کو سنجیدگی سے اس علاقہ میں دیرپا امن کیلیے مل بیٹھنا ہوگا۔

سیشن کے آخر میں شرکاء سے سولات بھی لیے گئے جن کے مہمانوں نے جوابات دئیے۔ جس کے بعد شہداء کے درجات کی بلندی اور ملک عزیز پاکستان کی سربلندی کی دعا کے ساتھ سیشن اپنے اختتام کو پہنچا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *