[]
مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے خبر دی ہے کہ صیہونی ذرائع ابلاغ نے دعوی کیا ہے کہ غاصب رژیم کے سیکورٹی اور عسکری ادارے سعودی عرب کے ساتھ معمول کے معاہدے کے لئے سیکورٹی فریم ورک کے حوالے سے موقف تشکیل دے رہے ہیں۔
غاصب صیہونی حکومت کے چینل “کان” کے سیاسی امور کے تجزیہ کار گیلی کوہن نے اس سلسلے میں وضاحت کی ہے کہ تل ابیب کے خفیہ سیکورٹی اور فوجی ادارے امریکی حکومت اور سعودی عرب کے اعلی حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات اور مشاورت کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات میں سعودی عرب کو جدید سسٹم سے لیس اسلحے کی فراہمی کے ایک بڑے معاہدے کے بارے میں بات چل رہی ہے جو بعد کے مرحلے میں ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کے معمول پر آنے کی راہ ہموار کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب نے حالیہ ہفتوں میں امریکہ اور اسرائیل کو ایک پیغام بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے: ہم تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے چھوٹے قدم نہیں چاہتے بلکہ اہم بڑے اقدامات چاہتے ہیں جن میں ہتھیاروں کا ایک بڑا پیکج، شہری مسائل اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی بادشاہت کو قانونی حیثیت دینا شامل ہے۔
گیلی کوہن نے ان مذاکرات کے بارے میں کہا کہ امریکی حکومت برسوں سے علاقائی فوجوں پر صیہونی فوج کی اعلیٰ برتری کے لیے پرعزم ہے جبکہ سعودی عرب کو جدید امریکی ہتھیاروں کے نظام کی منتقلی سے اس برتری پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو “اسرائیل” فوجی برتری کو برقرار رکھنے کے بدلے جدید ترین ہتھیاروں کا نظام ملنا چاہیے۔
اس سے قبل صیہونی حکومت کے ذرائع ابلاغ نے خبر دی تھی کہ سعودی عرب نے تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بدلے ایٹمی پروگرام کے حصول کے لئے شرائط رکھی ہیں۔
مذکورہ ذرائع ابلاغ نے واضح طور پر کہا کہ سعودی عرب نے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ناممکن شرائط رکھی ہیں جن میں یورینیم کی افزودگی کے لیے تل ابیب کی رضامندی حاصل کرنا، پرامن مقاصد کے لیے نیوکلیئر ری ایکٹر کی تعمیر، ریاض اور واشنگٹن کے درمیان دفاعی اتحاد قائم کرنا اور کئی دیگر شرائط شامل ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ نے حال ہی میں خبر دی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے اعلیٰ مشیر کو سعودی عرب بھیجا ہے تاکہ وہ سعودی ولی عہد سے تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بات چیت کرے۔