[]
مہررساں ایجنسی – دین و فکر ڈیسک: علماء اور مفسرین کا کہنا ہے کہ آج کے معاشرے کے عملی اور ضروری تصورات کو عام فکری حقائق میں تبدیل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی اہم آیات کو حفظ کیا جائے۔
رہبر معظم انقلاب نے ان کلیدی اور اہم آیات کو حفظ کرنے پر خصوصی زور دیا ہے جن سے استعمار نے اسلامی معاشروں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔
جہاد تبیین کے قرآنی فریضے کی تکمیل کے لیے ایک قومی سطح کی ہم آہنگ تحریک کی ضرورت ہے جس میں قرآنی تعلیمات کو پھیلانے کی عوامی تحریک کو حکومتی سطح پر مکمل حمایت حاصل ہو۔
رمضان المبارک میں لوگوں کے ایمان اور امید کو مضبوط کرنے کے لیے ایک قرآنی تحریک میں “آیات کے ساتھ زندگی” کے عنوان سے 50 آیات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
یہ تحریک عام لوگوں کی حفظ کی صلاحیتوں کو تقویت دینے کی ایک اہم کوشش ہے جس میں لوگوں کی اصلاح کو پیش نظر رکھا گیا ہے جس سے لوگوں کا ایک حصہ قرآن کریم کی 50 آیات سے واقف ہو جائے گا۔
معروف مفسر قرآن حجت الاسلام محمد علی انصاری صاحب نے اس خے اہم پہلووں کی طرف اشارہ کیا ہے جو کہ حسب ذیل ہیں:
سورہ زمر کی آیت 53 میں گناہگاروں سے خطاب ہے: کہہ دو، اے میرے بندو جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا ہے! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، اللہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا، بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
یہاں تمام گنہگاروں کو امید دلا کر اپنے رب کی طرف پلٹنے کا راستہ فراہم کیا گیا ہے، کیونکہ دین کا اصل مقصد تعلیم و رہنمائی ہے، انتقام اور تشدد نہیں۔ لہذا خدا نے ہر ایک کے لیے توبے کا دروازہ کھول دیا اور ان کو معاف کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس آیت میں تمام گہنگاروں کو بخشے جانے کی امید دے کر مایوسی کی دلدل سے نکالا گیا ہے۔
تاہم بخشش کا یہ وعدہ اس بات سے مشروط ہے کہ گناہ کرنے کے بعد انسان خدا کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرے اور سچے دل سے توبہ کرکے اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرے۔
آیت کا مرکزی پیغام یہ ہے کہ خدا کی رحمت سے مایوس ہونا جائز نہیں۔ لا تقنتوا من رحمت اللہ۔
گناہ کی بخشس طلب کرنا در اصل خدا سے رحمت و مغفرت طلب کرنا ہے۔ لہذا بغیر کسی یاس و نا امیدی کے خدا سے بخشش طلب کرنا چاہئے۔
کیونکہ اللہ انسان کی تمام لغزشوں کو معاف کرتا ہے اور وہ بخشنے اور معاف کرنے والا ہے۔