[]
ہسپانوی خاتون سیاح اور بلاگر کے ساتھ اجتماعی گینگ ریپ کے واقعے نے بھارت کو ایک بار پھر شرمسار کردیا ہے اور حکومت کے دعووں پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
جھارکھنڈ میں ایک غیر ملکی خاتون کے ساتھ گینگ ریپ کے واقعے نے بھارت میں خواتین کے تحفظ کی صورت حال پر پھر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں روزانہ اوسطاً تقریباً نوے خواتین کا ریپ ہوتا ہے۔بھارت کے مشرقی صوبے جھارکھنڈ میں برازیلی۔ ہسپانوی خاتون سیاح اور بلاگر کے ساتھ اجتماعی گینگ ریپ کے واقعے نے بھارت کو ایک بار پھر شرمسار کردیا ہے۔ اس نے جہاں خواتین کے تحفظ کی صورت حال کو اجاگر کیا ہے وہیں اس حوالے سے حکومت کے دعووں پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔
اس واقعے کے خلاف صرف بھارت میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی احتجاج ہورہے ہیں۔ پولیس نے چار ملزمین کو گرفتار کرنے کاد عویٰ کیا ہے لیکن تین اب بھی مفرور ہیں۔ اٹھائیس سالہ خاتون کے پاس برازیل اور ہسپانیہ کی دوہری شہریت ہے۔ وہ اوران کے شوہر ویسنیٹ وائی فرنانڈا کے نام سے بلاگ لکھتے ہیں۔
واقعہ کیا تھا؟
نئی دہلی میں برازیلی سفارت خانے نے ایک بیان جاری کرکے خاتون کے ساتھ ریپ کی تصدیق کی ہے اوراس جوڑے کے استحصا ل پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے، “واقعے کی اطلاع ملتے ہی سفارت خانے نے برازیلی شہری اور مقامی حکام سے رابطہ کیا۔ چونکہ ان کے پاس دوہری شہریت ہے اس لیے ہسپانوی سفارت خانے سے بھی رابطہ کیا گیا، جس نے جوڑے کو تمام طرح کی سہولت فراہم کرنے کی پیش کش کی۔”
متاثرہ خاتون نے اپنے ساتھ پیش آنے والے ہولناک واقعے کی روداد بلاگ پر شائع کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ وہ اور ان کے شوہر جمعے کی رات کو جھارکھنڈ کے ضلع دمکا میں ایک ٹینٹ میں تھے کہ سات افراد نے ان پر حملہ کردیا اور ان کا گینگ ریپ کیا۔ ان کے شوہر کو بھی زد و کوب کیا گیا۔جس سے دونوں زخمی بھی ہوگئے۔ انہوں نے لکھا کہ ایک وقت تو وہ سمجھ رہی تھیں کہ اب زندہ نہیں بچ پائیں گی۔ مقامی پولیس سربراہ پیتامبر کھیروار نے میڈیا کو بتایا کہ خاتون کی طبی جانچ کی گئی جس میں ان کے ساتھ ریپ کی تصدیق ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس واقعے میں ملوث چار افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور تین افراد کی تلاش جاری ہے۔
بھارت کی قومی خواتین کمیشن نے برازیلی خاتون کے ساتھ ریپ کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ریاستی پولیس سے فوراً تفتیش مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ” اس شرمناک حرکت کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔” دسمبر 2012 میں ایک 23 سالہ طالبہ کی قومی دارالحکومت میں گینگ ریپ اور موت کے بعد زبردست عوامی احتجاج کے نتیجے میں حکومت نے جنسی تشدد کے مجرمین کے خلاف سخت قوانین بنائے تھے، تاہم اس کے باوجود بھارت میں ہر سال لاکھوں لڑکیوں اور خواتین کو جبراً جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بھارت میں جرائم کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کی رپورٹ کے مطابق سن 2022 میں جنسی زیادتی کے 31500 سے زائد کیسز درج کرائے گئے۔ یعنی ہر روز ریپ کے تقریباً 86 کیسز پیش آئے۔ حالانکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ بیشتر افراد سماجی بدنامی کی وجہ سے ایسے واقعات کی رپورٹ درج نہیں کراتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سن 2022 میں ہی غیر ملکی شہریوں کے ساتھ ریپ کے 22 کیسز درج ہوئے۔
غیر ملکی خواتین کے ساتھ پہلے بھی ریپ کے واقعات پیش آچکے ہیں
جون 2022 میں گوا کے ساحل پر اپنے پارٹنر کے سامنے ایک برطانوی خاتون کا ریپ ہوا تھا جس پر کافی احتجاج کیا گیا تھا۔ اس سے دو سال قبل نئی دہلی میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں چند لوگوں نے ایک امریکی خاتون کو ان کے کمرے سے گھسیٹ کر باہر لے جاکر مبینہ طورپر گینگ ریپ کیا تھا۔ سن 2013 میں ایک سوئس سیاح کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے جرم میں چھ افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود ریپ اور گینگ ریپ کے واقعات اس لیے نہیں رک پارہے ہیں کیونکہ بااثر مجرموں کو نہ صرف رہا کردیا جاتا ہے بلکہ سیاسی جماعتیں ان کی حمایت میں کھڑی ہوجاتی ہیں اور رہائی کے بعد ان کا سماجی خیرمقدم کیا جاتا ہے۔
بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے مجرموں کی گجرات کی ریاستی حکومت کی ایما پر رہائی اور ان کا “شاندار استقبال” اس سلسلے کا حالیہ واقعہ ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ کی سخت ناراضگی کے بعد عمر قید سزا یافتہ ان مجرموں کو دوبارہ جیل بھیج دیا گیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;