[]
سوال:- کیا انسان کی بھی کوئی قیمت لگائی جا سکتی ہے؟ جس طرح عرب ممالک میں قیمت متعین کی گئی ہے کہ اکسیڈنٹ میں کسی ہندوستانی کی موت ہوجائے تو اتنی رقم اور کسی عربی کی موت ہوجا ئے تو اتنی رقم ادا کی جائے ، کیا اس کا لینا دینا جائز ہے ؟ ( عبدالمجید، ریاض)
جواب:- انسان اس سے بالا تر ہے کہ بازاری چیزوں کی طرح اس کی قیمت لگائی جائے ؛ لیکن کسی انسان کے مرنے کی وجہ سے جیسے اس کے ورثاء کو قلبی تکلیف پہنچتی ہے ، اسی طرح اکثر اوقات معاشی نقصان بھی پہنچتا ہے ؛
اس لئے شریعت نے خون بہا مقرر کیا ہے ، جس کو اصطلاح شرع میں ’’ دیت ‘‘ کہتے ہیں، اگر اکسیڈنٹ میں کسی شخص کی موت واقع ہوجائے اور حادثہ میں خود مرنے والے کی کوتاہی کو دخل نہ ہو ، تو جو شخص اس کا سبب بنا ہے ، اس پر خون بہا کی ادا ئیگی واجب ہوتی ہے ، اس کا لینا دینا درست ہے ،
شریعت میں خون بہا کی مقدار اونٹوں کے ذریعہ متعین کی گئی ہے ، (السنن الکبریٰ:۸؍۱۲۰)
ممکن ہے کہ سعودی عرب میں اسی کو بنیاد بناکر دیت مقرر کی گئی ہو ، میں اس بات سے واقف نہیں ہوں کہ سعودی عرب میں سعودی اور غیر سعودی کے درمیان دیت کی مقدار میں فرق کیا جاتا ہے ،
اسلامی نقطۂ نظر سے خون اور خون کی قیمت میں فرق نہیں کیا جاسکتا ، تمام مسلمانوں کی دیت برابر ہے؛ بلکہ مسلمان اور غیر مسلم کی دیت میں بھی فرق نہیں ؛
البتہ چوں کہ خاندان کی معاشی ضروریات مردوں سے متعلق ہوتی ہے نہ کہ عورتوں سے، اور کسی مرد کی موت سے متعلقین مالی اعتبار سے زیادہ دشواری میں مبتلا ہوجاتے ہیں؛ اس لئے عورتوں کی دیت بمقابلہ مردوں کے نصف رکھی گئی ہے ، اس میں بھی عرب اور غیر عرب کا کوئی فرق نہیں۔