جدید غزل اور مرثیہ کے منفرد لہجہ کا شاعر ’امید فاضلی‘

[]

اپنے معاصرین کی نسبت زیادہ سیاسی اور سماجی بصیرت رکھنے والا شاعر امید فاضلی 29 ستمبر 2005 کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گیا۔ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں ان کی قبر ہے۔ امید فاضلی کے متعدد اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں۔

آسمانوں سے فرشتے جو اتارے جائیں

وہ بھی اس دور میں سچ بولیں تو مارے جائیں

چمن میں رکھتے ہیں کانٹے بھی اک مقام اے دوست

فقط گلوں سے ہی گلشن کی آبرو تو نہیں

یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ

ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر چلے جاتے

کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی

خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے

کسی سے اور تو کیا گفتگو کریں دل کی

کہ رات سن نہ سکے ہم بھی دھڑکنیں دل کی

سوانگ اتنے بھرے کہ بھول گیا

میرا اپنا بھی ایک چہرہ ہے

خود اپنے دکھ کے سمندر کو متھ رہا ہوں میں

 جو زہر مجھ میں بھرا ہے مجھی کو پینا ہے

وہ قحط آرزو ہیکہ بازار عقل میں

نظارے نے نگاہ کی قیمت لگائی ہے

ہائے کیا لوگ یہ آباد ہوئے ہیں مجھ میں

 پیار کے لفظ لکھیں لہجے سے ڈستے جائیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *