[]
عمران خان کو لمبی لمبی سزائیں دے کر ایک تنگ کال کو ٹھری میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ وہ سیاست چھوڑنے پہ مجبور ہو جائیں لیکن وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔
کل خصوصی عدالت کی سزا کے بعد پاکستان میں نیب کی ایک عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی زوجہ بشریٰ بی بی کو 14 14 برس قید کی سزائیں سنادی ہیں۔ عدالتوں کی یہ پھرتیاں کئی حلقوں میں زیربحث ہیں۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اتنی تیزی سے فیصلے ہوتے ہوئے نہیں دیکھے جبکہ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ ان پھرتیوں کا مقصد پارٹی کو توڑنا اورعمران خان پر دباؤ بڑھانا ہے۔ لمبی سزاؤں کے بعد عمران خان کو کیا کوئی قانونی ریلیف مل سکتی ہے؟ کچھ قانونی ماہرین اس بات پر بھی بحث کر رہے ہیں۔
’اتنی عجلت کے فیصلے نہیں دیکھے‘
واضح رہے کہ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے وکلاء کو عمران خان اور دیگر رہنماؤں کے دفاع کے لیے اچھا خاصا وقت دیا گیا لیکن قانونی ماہرین حکومت کی اس حجت سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے عدالتی تاریخ میں کبھی اتنی پھرتی نہیں دیکھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں بہت سے مسئلے تھے لیکن انکی بھی ایک اپیل میں ایک برس لگ گیا تھا لیکن یہاں تو معاملات چند دنوں یا ہفتوں میں ہو رہے ہیں جبکہ ملزم سے حق دفاع بھی چھینا جارہا ہے، جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔‘‘
جسٹس وجیہہ الدین احمد نے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان عدالتوں میں بھی مقدمات کو چنا جا رہا ہے۔ ” اور صرف مخصوص مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔‘‘
سزاؤں کا مقصد ؟
عمران خان کی بہن علیمہ خان کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کو یہ سزائیں اس لیے دی جا رہی ہیں تاکہ عمران خان کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جائے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”عمران خان کو ملک اور سیاست چھوڑنے کے لیے کہا گیا تھا، جس کو انہوں نے مسترد کردیا۔ اس لیے اب انہیں لمبی لمبی سزائیں دے کر ایک تنگ کال کو ٹھری میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ وہ سیاست چھوڑنے پہ مجبور ہو جائیں لیکن وہ ایسا کبھی نہیں کریں گے۔‘‘
حکام اتنی عجلت میں کیوں؟
علیمہ خان کے مطابق حکام سزائیں دینے میں انتہائی عجلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ” نیب کے جس جج نے سزا دی ہے، عموماً وہ 11 بجے تشریف لاتے ہیں لیکن آج وہ صبح نو بجے ہی آگئے اور چھ منٹ میں سزا دے دی۔‘‘علیمہ خان کے مطابق عمران خان سے جج نے جب بیان ریکارڈ کروانے کا کہا تو عمران خان نے کہا کہ وہ اپنے وکیلوں کی عدم موجودگی میں ایسا نہیں کر سکتے اور یہ کہہ کر وہ اپنے بیرک چلے گئے۔ علیمہ خان نے مزید کہا، ”وکیلوں کو اور مجھے اندر نہیں جانے دیا اور عمران خان کی عدم موجودگی میں سزا سنا دی گئی۔‘‘
’سزاؤں کا مقصد پارٹی کو ختم کرنا ہے‘
عمران خان کی لیگل ٹیم کے ایک رکن شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ عجلت میں دی جانے والی ان سزاؤں کا مقصد پارٹی کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”آج بھی ہمارے مرکزی آفس کا راستہ بند کر دیا گیا اور ہمیں وہاں ورکرز کنونشن کرنے نہیں دیا گیا، جس سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ پارٹی کو ختم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔‘‘
شعیب شاہین کے مطابق پھرتی سے دی جانے والی ان سزاؤں کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان میں خوف پیدا کیا جائے۔ اور ”عوام میں مایوسی پیدا کی جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سزاؤں کی وجہ سے تحریک انصاف کے کارکنان کا حوصلہ مزید پختہ ہو رہا ہے۔‘‘
’پی ٹی آئی صورت حال کی ذمہ دار ہے‘
کچھ غیر جانبدار قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہپی ٹی آئی کی قانونی ٹیم خود اس ساری صورتحال کی ذمہ دار ہے۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون داں کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”عمران خان نے فارن فنڈنگ کیس میں چھ وکیل اور سائفر میں آٹھ وکیل تبدیل کیے، جو پھر ججوں کے سامنے یہ کہتے ہیں کہ ہمیں تیاری کا وقت دیا جائے۔‘‘ انعام الرحیم کے مطابق کریمنل کیسز میں پہلے ہی دن سے ایک بیانیہ تیار کیا جاتا ہے۔ ”اگر اس طرح وکیل تبدیل کیے جائیں تو وہ بیانیہ کمزور پڑ جاتا ہے اور مقدمہ ملزم کے خلاف چلا جاتا ہے۔‘‘
’سارے سیاست دانوں نے توشہ خانہ قانون توڑا‘
انعام الرحیم نے اس بات کا اعتراف کیا کہ توشہ خانہ کے معاملے میں تمام سیاست دانوں کا رویہ ایک جیسا ہے۔ ”توشہ خانہ تحائف کے معاملے میں کسی بھی وزیر اعظم یا حکومتی بندے نے قوانین کا احترام نہیں کیا اور تقریباً سب نے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔‘‘
قانونی ریلیف اب بھی ممکن ؟
عمران خان کو دی جانے والی لمبی سزاؤں کے بعد کئی حلقوں کا یہ خیال ہے کہ عمران خان کو کسی بھی طرح کی ریلیف نہیں مل سکتی۔ تاہم جسٹس وجیہہ الدین احمد کا کہنا ہے کہ اگر عدالتیں چاہیں تو عمران خان کو ریلیف دے سکتی ہیں۔ ”جس تیزی سے ان مقدمات کا فیصلہ ہوا ہے اسی تیزی سے ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ اپیلیں سن سکتی ہیں اور صرف سزاؤں کو نہیں بلکہ فیصلوں کو معطل کر کے عمران خان کو انتخابات لڑنے کی اجازت دے سکتی ہیں۔‘‘
بے نظیر کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملی
جسٹس وجیہہ الدین احمد کے مطابق ان کے سامنے بے نظیر بھٹو کا ریفرنس اس وقت آیا جب وہ سندھ ہائی کورٹ میں تھے۔ ” بے نظیر بھٹو نے کہا کہ یہ ریفرنس ہمیں الیکشن سے باہر کرنے کے لیے ہے۔ تو میں نے بے نظیر کو ذاتی طور پر عدالت آنے سے استثنٰی دیا اور وہ ریفرنس چار سال تک چلتا رہا لیکن اس دوران بے نظیر کو انتخابات لڑنے کی اجازت دی گئی۔ اگر اعلی عدالتیں چاہیں تو وہ بالکل اسی طرح عمران خان کو اجازت دے سکتی ہیں۔‘‘
بنیادی حقوق کی دلیل
جسٹس وجیہہ الدین کے مطابق عمران خان یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ انتخابات سے روکنا ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جس کی آئین ضمانت دیتا ہے۔ ” عمران خان یہ بھی دلیل دے سکتے ہیں کہ اس کے علاوہ یہ عوام کے بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے کہ وہ اپنی پسند کا نمائندہ منتخب نہیں کرسکتے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;