گیانواپی مسجد سروے سے متعلق مسلم فریق کا سنسنی خیز انکشاف

[]

وارانسی(یوپی): گیانواپی مسجد کمیٹی نے جمعہ کے روز کہا کہ محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کی جانب سے مسجد کا سروے جس کے بارے میں ہندو فریق کے وکلاء کا دعویٰ ہے کہ یہ پہلے سے موجود مندر کے ملبہ پر تعمیر کیا گیا ہے، محض ایک رپورٹ ہے کوئی فیصلہ نہیں۔

انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی نے کہا کہ وہ لوگ اے ایس آئی کی سروے رپورٹ کا مطالعہ کررہے ہیں جس کے بعد کوئی تبصرہ کریں گے۔ کمیٹی کے سکریٹری محمد یٰسین نے کہا کہ یہ محض ایک رپورٹ ہے فیصلہ نہیں۔ کئی قسم کی رپورٹیں ہوتی ہیں۔ یہ اس مسئلہ پر حرف آخر نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ لوگ سپریم کورٹ میں عبادت گاہوں (خصوصی دفعات)سے متعلق قانون 1991 سے تعلق رکھنے والی درخواست کی جب سماعت ہوگی اس وقت اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔

اس قانون کے تحت ایودھیا میں رام مندر کے علاوہ کسی بھی مقام کے مذہبی کردار کردار کو جو 15 اگست 1947 کو تھا، تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے تازہ واقعات پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ گیانواپی مسجد کی جگہ ہندوؤں کے حوالے کردیں۔

ایسے کوئی بیانات جاری نہیں کئے جانے چاہئے جن سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل پڑتا ہو۔ کاشی وشواناتھ۔ گیانواپی کیس کے ہندو درخواست گزاروں کے وکیلوں نے چہارشنبہ کے روز دعویٰ کیا تھا کہ محکمہ آثار قدیمہ کے سائنٹفک سروے کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ مسجد پہلے سے موجود مندر کے ملبہ پر بنائی گئی ہے۔

اس کیس میں چار خاتون درخواست گزاروں کی نمائندگی کررہے وشنوشنکر جین نے کہا کہ 839 صفحات پر مشتمل رپورٹ سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کاشی وشواناتھ مندر سے متصل مسجد 17ویں صدی میں اورنگ زیب کے دور حکومت میں ایک شاندار ہندو مندر کو مسمار کرنے کے بعد اس کے ملبہ پر تعمیر کی گئی تھی۔ انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ سروے رپورٹ میں اس مقام پر ایک مندر کی موجود گی کے کافی ثبوت دیئے گئے ہیں۔

جہاں اب مسجد بنی ہوئی ہے۔ ایک ہندو درخواست گزار راکھی سنگھ کے وکیل مدن موہن یادو نے کہا کہ 32 مقامات پر ثبوت پائے گئے ہیں جن سے وہاں مندر کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔ جین نے دعویٰ کیا کہ ہندو بھگوانوں کے مجسموں کا ملبہ دو تہہ خانوں میں پایا گیا۔ پہلے سے موجود مندر کے بعض حصوں بشمول ستونوں کو گیانواپی مسجد کی تعمیر میں استعمال کیا گیا تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مندر کے انہدام کا حکم اور تاریخ ایک پتھر پر فارسی زبان میں کندہ ہیں۔

ایک اور پتھر بھی پایا گیا ہے جس پر ”مہامکتی“ تحریر ہے۔ جین نے مزید دعویٰ کیا کہ مسجد کے پچھلے حصہ کی مغربی دیوار پہلے سے موجود مندر کی دیوار ہے۔ اس دیوار پر ایک ”گھنٹہ“ (بڑی گھنٹی) اور سواستک کا نشان کندہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تہہ خانہ کی چھت نگارا طرز کے مندر کے ستونوں پر تعمیر کی گئی ہے۔

جین نے دعویٰ کیا ان ثبوتوں سے پتہ چلتا ہے کہ 17 ویں صدی میں جب اورنگ زیب نے آدی ویشورا کی مندر کو مسمار کیا تھا تو اس وقت وہاں پہلے سے ایک شاندار مندر موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ عدالت سے اپیل کریں گے کہ وضو خانہ کا سروے بھی کرایا جائے۔ 6/فروری کو آئندہ سماعت کے موقع پر رپورٹ کی بنیاد پر وہ لوگ عدالت کے روبرو اپنے دلائل پیش کریں گے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *