[]
واشنگٹن: امریکہ کی جنوبی ریاست الابامہ میں پہلی مرتبہ نائٹروجن گیس کے ذریعے ایک شخص کو سزائے موت دی گئی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قتل کے ملزم پر الزامات ثابت ہونے کے بعد سزا کے لیے متنازعہ طریقہ اختیار کیے جانے پر انسانی حقوق کے حامیوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ریاست کے اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ کینیتھ یوجین سمتھ کو رات آٹھ بج کر 25 منٹ پر مردہ قرار دیا گیا۔اٹارنی جنرل اسٹیو مارشل نے ایک بیان میں کہا کہ ’انصاف ہو گیا، آج رات کو کینیتھ سمتھ کو اس بڑے جرم کی سزا دی گئی جو اس نے 35 برس قبل کیا تھا۔
58 سالہ کینیتھ سمتھ کو 1988 میں ایک خاتون کے قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ ان کو ایٹمور کی ہولمین جیل میں سزا موت دی گئی، ان کے چہرے پر ماسک چڑھایا گیا جس میں نائٹروجن گیس چھوڑی گئی جس سے ان کا دم گھٹ گیا اور موت واقع ہو گئی۔
مقامی نیوز ویب سائٹ نے موقع کے عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ’دو سے چار منٹ تک ان کے جسم میں شدید اینٹھن پیدا ہوئی جس کے بعد وہ تقریباً پانچ منٹ تک زور زور سے سانس لینے کی کوشش کرتے پائے گئے۔‘
رپورٹ کے مطابق میڈیا کے کمرے کا پردہ سات بج کر 53 منٹ پر ہٹایا گیا اور بتایا گیا اور 35 منٹس سے کم وقت میں وہ جان سے جا چکے تھے۔سمتھ کو اس سے قبل 2022 میں بھی پھانسی دینے کی کوشش کی گئی تھی تاہم اس وقت جیل کے اہلکار انہیں مہلک انجکشن لگانے کے لیے مطلوبہ نسیں تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے۔
امریکہ میں آخری بار 1999 میں ہائیڈروجن گیس کے ذریعے سزائے موت دی گئی تھی۔2023 کے دوران امریکہ میں 24 افراد کو سزائے موت دی گئی جس پر عمل درآمد زہریلے انجکشن کے ذریعے کیا گیا۔الابامہ ان تین امریکی ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں نائٹروجن گیس کو بطور سزائے موت استعمال کرنے کی منظوری دی جا چکی ہے۔