[]
مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ اور شیوسینا (یو بی ٹی) چیف ادھو ٹھاکرے نے بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف انتخابی جنگ کا محاذ کھولتے ہوئے منگل کو ناسک میں منعقد تقریب میں کہا کہ رام مندر کا کام ختم ہو گیا ہے، پی ایم کو اب کام کی بات کرنی چاہیے۔ ٹھاکرے نے کہا کہ انھوں نے اور ان کی پارٹی نے گزشتہ دو پارلیمانی انتخاب میں مودی کے لیے زوردار انتخابی تشہیر کی تھی اور آنجہانی بالاصاحب ٹھاکرے نے ہندوتوا کو لے کر بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔
ادھو ٹھاکرے نے اپنی بیوی رشمی اور بیٹے آدتیہ کے ساتھ سرکردہ لیڈروں اور بڑی تعداد میں کارکنان کی موجودگی میں بالاصاحب ٹھاکرے کی 98ویں یومِ پیدائش کے دن ناسک کے تیرتھ استھل سے اپنی پارٹی کے 2024 میں انتخابی مہم کی شروعات کی۔ انھوں نے پارٹی کارکنان میں جوش بھرنے کے لیے جلوس کا انعقاد کیا اور پھر عظیم الشان جلسہ عام سے خطاب کیا۔
ادھو ٹھاکرے نے ایک پارٹی سمیلن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس وقت ہم بے ایمان نہیں تھے، اب اچانک ہمیں بدعنوان قرار دیا گیا ہے، اس لیے کشوری پیڈنیکر، راجن سالوی، سورج چوہان، رویندر وائیکر، انل پرب جیسے میری پارٹی کے کئی لیڈران الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ سنجے راؤت کو جھوٹے الزامات میں جیل بھی بھیجا گیا تھا۔ سی بی آئی کے ذریعہ ہمیں پریشان کیا جا رہا ہے اور بدنام کیا جا رہا ہے۔‘‘
بھگوان رام کے مندر میں پران پرتشٹھا تقریب کے بعد اپنی تقریر میں ایودھیا مندر ٹرسٹ کے خزانچی گووند گری جی مہاراج کے ذریعہ مودی اور چھترپتی شیواجی مہاراج کے درمیان یکسانیت بتانے پر اعتراض ظاہر کرتے ہوئے ٹھاکرے نے کہا کہ دونوں میں کوئی موازنہ نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے کہا کہ ’’چھترپتی شیواجی مہاراج اور بالاصاحب ٹھاکرے کی وجہ سے ہی مندر کا ایشو سامنے آیا۔ بالاصاحب کی وجہ سے ہی مہاراشٹر اور ملک کئی مواقع پر دشمنوں، دہشت گردانہ حملوں اور فسادات سے بچا رہا۔ میرے شیوسینک نے تو پولیس کی لاٹھیاں اور گولیاں تک کھائیں۔ اب ہم بی جے پی کے ساتھ پہلے کیے گئے اتحاد کو لے کر پچھتا رہے ہیں۔‘‘
آج بالاصاحب ٹھاکرے کی 98ویں جینتی کے موقع پر ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ ’’بھگوان رام کسی لیڈر یا کسی پارٹی کی ذاتی ملکیت نہیں ہیں، بلکہ بی جے پی نے بھگوان رام کا اغوا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بھگوان رام کو بی جے پی کے چنگل سے آزاد کرایا جائے۔‘‘ ٹھاکرے نے اپنا حملہ تیز کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی پوچھتی رہتی ہے کہ کانگریس نے 75 سالوں میں کیا کچھ کیا، لیکن اب انھیں جواب دینا ہوگا کہ مودی نے 10 سالوں میں کیا کچھ کیا ہے۔ انھوں نے پی ایم مودی کو مشورہ دیا کہ وہ صرف ’جئے شری رام‘ کا نعرہ نہ لگائیں، بلکہ بھگوان رام کے اصولوں پر بھی چلیں۔ انھوں نے کہا کہ جب کانگریس نے ہندوستان کی آزادی کے لیے لڑائی لڑی تو اس وتق نہ تو آر ایس ایس اور نہ ہی جَن سنگھ وہاں تھے اور وہ تحریک آزادی میں بھی شامل نہیں ہوئے۔ جَن سنگھ نے 1960 کی دہائی میں متحدہ مہاراشٹر تحریک کو بھی ناکام کرنے کی کوشش کی۔
بی ایم سی (برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن) میں جانچ کا ذکر کرتے ہوئے ٹھاکرے نے کہا کہ صرف بی ایم سی میں ہی جانچ کیوں ہو رہی ہے؟ ٹھانے، پونے، ناگپور اور دیگر میونسپل کارپوریشنز میں جانچ کیوں نہیں ہو رہی ہے؟ انھوں نے 8000 کروڑ روپے کے ایمبولنس گھوٹالے جیسی بدعنوانی پر سوال اٹھایا اور الزام لگایا کہ بی جے پی نے پی ایم کیئر فنڈ سے ملک میں سبھی بڑے گھوٹالوں کی شروعات کی۔
ادھو ٹھاکرے نے زوردار آواز میں کہا کہ ’’پی ایم کیئر فنڈ کی جانچ ہونی چاہیے کہ سارا پیسہ کہاں گیا، کوئی تفصیل کیوں نہیں دی گئی، جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو ان سبھی چیزوں کی جانچ کرائیں گے اور جو بھی قصوروار ہیں انھیں سلاخوں کے پیچھے ڈالیں گے۔‘‘ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی قیادت والی برسراقتدار شیوسینا پر حملہ کرتے ہوئے شیوسینا (یو بی ٹی) چیف نے متنبہ کیا کہ ’’ہم تب تک آرام نہیں کریں گے، جب تک ہم ریاست میں اگلے انتخابات میں سبھ غداروں کو ہرا نہیں دیتے۔‘‘
جون 2022 میں حقیقی شیوسینا سے الگ ہوئے شندے پر نشانہ سادھتے ہوئے ٹھاکرے نے کہا کہ ’’وہ کہتے ہیں کہ میں ایک نسل وادی پارٹی چلا رہا ہوں، ہاں… لیکن مجھے اپنے شیوسینکوں سمیت سب کچھ وراثت میں ملا ہے۔ میں نے آپ کی طرح کچھ بھی چرایا نہیں ہے۔‘‘ حال ہی میں ملند ایم دیوڑا کے کانگریس چھوڑ کر شندے کی شیوسینا میں شامل ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے بغیر نام لیے انھوں نے بی جے پی اور شیوسینا پر دیگر پارٹیوں کے لیڈروں کو دور لے جانے کی مذمت کی اور بی جے پی پر مخالفین کے ساتھ برطانوی دور کی ’پھوٹ ڈالو اور راج کرو‘ کی پالیسی اختیار کرنے کا الزام لگایا۔