ہمیں عاشورہ سے کیا درس ملتا ہے؟

[]

مہر خبررساں ایجنسی – گروہ دین و اندیشہ: سید الشہداء ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام اور ان کے عظیم ساتھیوں کے یومِ سوگ یعنی عاشورہ کی تحریک سے مفکرین نے جو کچھ حاصل کیا ہے آج اسے دوبارہ پڑھنے کا ایک اچھا موقع ہے۔

ذیل میں آیت اللہ مصباح یزدی کے خطاب کے کچھ اقتباسات پیش کئے جارہے ہیں جو انہوں 2005ء میں انقلابی عوام کے اجتماع میں بیان کئے تھے:

ایران کے اسلامی انقلاب کو بھی آفتاب عاشورہ کے ایک مظہر کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ ان دنوں میں ایک نکتہ جس کی طرف توجہ دینا مناسب ہے وہ یہ ہے کہ عاشورہ کے اس واقعے سے ہم اپنی زندگیوں اور اپنے انقلاب کے تسلسل کے لیے کون سا بہترین سبق سیکھ سکتے ہیں؟ 

چند روز قبل رہبر معظم نے ایک بہت ہی جامع، گہری اور بامعنی گفتگو کی اور فرمایا کہ عاشورہ سے جو اہم سبق ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنا شرعی وظیفہ ادا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہنا چاہیے، چاہے اس کے لئے ہمیں بڑے خطرات کو برداشت کرنا ہی کیوں نہ پڑے، چاہے وہ خطرہ جان اور عزت کا ہی کیوں نہ ہو۔ رہبر معظم کا فرمانا تھا کہ جب حالات اور شرائط مناسب ہوں تو نہایت سخت کام انجام دینا چاہیے۔

ائمہ علیہم السلام کا کام صدر اسلام میں حقیقی اسلام پر ہونے والے حملوں، جن میں سے بعض کی حمایت اور قیادت کافروں اور سرحدوں سے باہر کی قوتیں کر رہی تھیں، کے مقابلے میں مثبت تبلیغ کو جاری رکھتے ہوئے منافقوں کا چہرہ بے نقاب کرنا تھا لیکن یہ کام بھی اتنا آسان نہیں تھا، جس کے لئے علی ع نے خون جگر پیا جو کہ در حقیقت اسلام کی بقا کے لئے انجام پانے والے موئثر تدبیر تھی۔

المیہ یہ ہے کہ ہم امام حسین علیہ السلام کی تاریخ کو بھی صحیح طور پر نہیں جانتے۔ ہمیں صرف عاشورا کے دس دن کی تاریخ معلوم ہے۔ 

امام حسن (ع) کی شہادت کے بعد عاشورا تک امام حسین (ع) نے کیا کیا؟

آج کی تعبیر کے مطابق ان دس سالوں میں امام حسین علیہ السلام کا سب سے بڑا کام کیڈر سازی، تبلیغ، روشن گری اور حقائق کا انکشاف تھا، آپ نے لوگوں کو خطرات سے آگاہ کیا، خواہ منیٰ میں عوامی تقریروں میں ہو یا حج کے دنوں میں دیگر مقامات پر، یا خفیہ طور پر ان لوگوں کو خطوط لکھے جو موثر تھے اور انہیں اپنے پاد بلایا۔

اگر اس وقت امام حسین ع یہ سرگرمیاں نہ ہوتیں تو امام حسین علیہ السلام عاشورہ کے موقع پر اسی تحریک کو چلانے میں کامیاب نہ ہوتے اور تحریک عاشورہ کی برکتیں انہیں اقدامات کے نتیجے میں حاصل ہوئیں۔

اگر آج ایسی صورت حال پیدا ہو جس میں منافقین اور دشمنان اسلام کا چہرہ سوائے قتل کرنے کے بے نقاب نہ ہو سکے تو ہمیں ایسا کرنا چاہیے۔

 ہمیں یہ حساب نہیں لگانا کہ ہماری آبادی کتنی ہے اور مخالفین کی تعداد کتنی۔

بس ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خطرے کو اصل دین سے کیسے دور کیا جائے۔

جب ہم کہتے ہیں کہ دین خطرے میں ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ امام خمینی رح کی اس تقریر کا کیا مطلب ہے جب انہوں نے کہا: اے مشہد، اے قم، اے نجف، میں خطرے کا اعلان کر رہا ہوں، اسلام کے  خطرے میں پڑنت کا اعلان کر رہا ہوں، اس کا کیا مطلب ہے؟ 

امام کس چیز سے ڈر رہے تھے؟ میرا مطلب ہے کیا امام اس بات سے ڈرتے تھے کہ ریڈیو میں لا الہ الا اللہ کے بجائے دو خدا  ہونے کا اعلان کریں گے؟

کیا شاہ (رضا شاہ) نے کہا کہ دو خدا ہیں؟ کیا وہ ہر سال اپنے محلات میں مجلس نہیں منعقد کرتے تھے؟ نہیں ایسا نہیں، بلکہ بہت سے احکام ایسے تھے جن پر امریکہ نے حکم دیا تھا کہ تم عمل کرو، اور یہ احکام اسلام کے خلاف تھے۔ امام نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں خطرے کا اعلان کروں گا۔

اسلام کے احکام کی معطلی کے سوا اسلام کو کون سا خطرہ لاحق تھا؟ اگر کسی اور زمانے میں خدا نہ کرے، ایسا دن آئے کہ جب کسی بہانے اسلام کے احکام معطل کر دیے جائیں، یا کوئی نئی قرآت پیش کیا  جائے، یا کہا گیا کہ ان احکام کے نفاذ کی تاریخ گزر چکی ہے، یا یہ کہ اسلام انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتا، یا اآزادی کے ساتھ سازگار نہیں، اگر کسی بھی وجہ سے یہ طے ہو جائے کہ اسلام کے احکام دوبارہ معطل ہو جائیں گے، تو پھر وہی کرنا چاہیے جو امام خمینی رح نے کیا، اور امام راحل نے امام حسین علیہ السلام سے جو درس لیا تھا اس کو عملا کر دکھایا۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *