[]
معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے کہا تھا :
’’میرا عقیدہ ہے کہ جو قوم اپنے آپ پر جی کھول کر ہنس سکتی ہے وہ کبھی غلام نہیں ہو سکتی۔ ‘‘
…لیکن آج ہم خود پر ہنسنا بھول چکے ہیں ، البتہ دوسروں پر دل کھول کر ہنستے ہیں بلکہ جہاں ہنسنے کا موقع نہ ہو وہا ںبھی ہنستے ہیں اور جب کوئی ہم پر ہنسے تو مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں … ہم نے گویاہنسنا ترک کرکے سنجیدگی کو سنجیدگی سے گلے لگا لیا ہے .. کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے ایک دور ایسابھی آئے گا جب ہم دوسروں پر ہنسنا تک بھول جائیں گے اور کسی ہنستے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر منیش شکلا کا یہ شعر ہمارے ہونٹوں پر لہرائے گا :
تجھے جب دیکھتا ہوں تو خود اپنی یاد آتی ہے
مرا انداز ہنسنے کا کبھی تیرے ہی جیسا تھا
عشق بھی بڑا عجب جذبہ ہے ،عاشق ہنسنا بھول جاتا ہے لیکن لوگ اس پر ہنستے ہیں …اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج جس طرح شہد اور گھی کا اصلی ملنا محال ہے ، اسی طرح عشق بھی اب اصلی نہیں رہا، جس پر جان چھڑکنے کے دعوے کیے جاتے ہیں، اسی پر تیزاب چھڑک دیا جاتا ہے …ماضی کے عشق کے ماروں کے تعلق سے جگر مرادآبادی نے کیا خوب کہا تھا:
ہم عشق کے ماروں کا اتنا ہی فسانہ ہے
رونے کو نہیں کوئی ہنسنے کو زمانہ ہے
شہنشاہ ظرافت مجتبیٰ حسین نے کسی موقع پر کہا تھا مزاح نگار بڑا ہی غمگین شخص ہوا کرتا ہے جو اپنے غم کو پی کر لوگوں کو ہنسانے کا فن بخوبی جانتا ہے … چارلی چپلن کو دیکھ لیں،انہوں نے الفاظ کی جادوگری کے بغیر ہی محض اپنی حرکتوں سے ساری دنیا کو ہنسایا …ان کی حرکتوں پر ہی کیا منحصر ہے،ان کے چہرے پر سجی موچھیں دیکھ کر ہی آدمی کی باچھیں کھل جاتی ہیں …چارلی چپلن سے لے کر عمر شریف تک اپنی زندگی میں تلخیوں کے باوجود دنیا کو ہنساتے رہے ، کہنے کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی ہنسا رہا ہے اور ہم ہنس رہے ہیں تو ہم یہ نہ سمجھیں کہ مرد کو درد نہیں ہوتا کہ مصداق مزاح نگار کو درد نہیں ہوتا …عین ممکن ہے اس کا درد ہمارے درد سے کئی گنا بڑھ کر ہو…
خود پر کسی کو ہنسنے کا موقع نہیں دیا
پوچھا کسی نے حال تو سگریٹ جلا لیا
احیاء بھوجپوری
’’غموں کا دور بھی آئے تو مسکرا کے جیو‘‘ کو آگے بڑھاتے ہوئے وقار مانوی نے کیا خوب کہا ہے :
بہت سے غم چھپے ہوں گے ہنسی میں
ذرا ان ہنسنے والوں کو ٹٹولو
انسان کے لیے ہنسنا بہت ضروری ہے لیکن ہنسی سب کے چہرے پر نہیں جچتی، ہنستے ہوئے کچھ کے چہروں کی حالت توایسی عجیب و غریب ہوجاتی ہے کہ دیکھنے والے کو ہنسی آجاتی ہے … ایک تحقیق کے مطابق ہر دس منٹ کی گفتگو میں لوگ سات بار ہنستے ہیں…ہمیں تو اس تحقیق پر ہی ہنسی آرہی ہے …اس قبیل کی تحقیق کرنے والے کسی بھی موضوع پر تحقیق کرلیتے ہیںاور پھر اپنے بے سر پیر کے خیالات دوسروں کے سر تھونپ دیتے ہیں …بھلا وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہر دس منٹ کی گفتگو میں لوگ سات بار ہنستے ہیں…اس تحقیق کو پڑھ کربیچارے چمن بیگ یہ سمجھ بیٹھے کہ ہر دس منٹ کی گفتگو میں انہیں سات بار ہنسنا بے حد ضروری ہے …چنانچہ اب وہ گھڑی دیکھ کر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں اور دس منٹ میں سات بار ہی ہنستے ہیں ،چاہے ہنسنے کا موقع ہو یانہ ہو…تاکہ تحقیق غلط نہ ثابت ہوجائے… اب تو دس منٹ کی گفتگو میں سات بار ہنسنے کے وہ اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ سات بار سے وہ کم ہنستے ہیں اور نہ سات بار سے زیادہ…مگر ہنستے ضرور ہیں…مزے کی بات تو یہ ہے کہ دس منٹ میں سات بار ہنسنے کے بعد ہنسنے والی کسی بات پر بھی وہ نہیں ہنستے… ایسے چپ رہتے ہیں جیسے انہوں نیکچھ سنا ہی نہیں ہے…
ہنسنااپنے جذبات کے اظہارکا ایک وسیلہ ہوا کرتا ہے ،خالق کائنات کی کاری گری کے کیا کہنے کہ اس نے نہ صرف چہرے الگ الگ بنائے ہیں ،بلکہ ہر کسی کی ہنسی کی آواز بھی الگ الگ ہوا کرتی ہے…کہنے والوں نے تو یہاں تک کہہ ڈالا ہے کہ ہنستے وقت ہماری عام بات چیت سے مختلف آوازیں ہوتی ہیں، اگر غور کیا جائے تو وہ جانور کی آوازوں سے ملتی جلتی ہیں…اس تحقیق کو پڑھ کر چمن بیگ پر توگویا سکتہ طاری ہوگیا ،اب وہ ہر ممکن کوشش کررہے ہیں کہ کوئی ان کی ہنسی کو کسی جانور کی آواز سے مشابہ نہ ثابت کردے چنانچہ اس احتیاط سے ہنسنے لگے ہیں کہ ان کی ہنسی میں بھی انسانیت جھلکتی بلکہ ٹپکتی نظر آئے …
لوگ ہنسنے والے کو پہچان ہی لیتے ہیں چاہے کسی مختلف ثقافت سے تعلق رکھنے والا شخص ہی کیوں نہ ہنس رہا ہو۔برطانیہ میں کامیابی پر خوشی کا اظہار بلند چیخ مار کر نا عام رواج نہیں ہے جبکہ اس کے برعکس افریقہ کے بعض علاقوں میں لوگ بلند آواز نکال کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔انسانوں کے علاوہ اور بھی جاندار ہیں جو ہنستے ہیں جیسا کہ گوریلے اور بن مانس وغیرہ…چوہوں میں بھی ہنسنے کی علامات ملی ہیں…اور یہ اس وقت خوب کھلکھلا کر ہنستے ہیں جب حضرت انسان ان کی بجائے زمین پر ڈنڈا مارات رہ جاتاہے اور وہ سرپٹ دوڑ جاتے ہیں …
ہنسنا ایک ٹانک ہے، یوں ہی نہیں کہا گیا،اگر ہم ملکہ الزبتھ کی زندگی کے آخری برسوں پر نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے کہ اکثر و بیشترکوٹ میں ملبوس رہنے والی ملکہ میں حس مزاح کوٹ کوٹ کر بھری تھی…شہزادہ ہیری نے تواپنی دادی کی زبردست ’’حسِ مزاح‘‘ کو اُن کی سب سے بڑی خوبی قرار دیا تھا…رابرٹ لیسی ملکہ کی حسِ مزاح کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اکثر اپنا مذاق بھی اڑا لیا کرتی تھیں۔شاہی مورخ نے بھی ملکہ الزبتھ دوم کی وفات سے قبل کہا تھا کہ ’’چیزوں کو ہنس کر ٹال دینا زندہ رہنے کی ایک اہم ترکیب ہے۔‘‘ملکہ کی حس مزاح کے کیا کہنے کہ ایک تقریب میں چاقو کی بجائے تلوار سے کیک کاٹنے کے بعدانہوں نے کہا… ’’مجھے پتا ہے کہ چھری موجود ہے،لیکن یہ زیادہ غیر روایتی ہے۔‘‘
ایک مرتبہ ایک سیاست دان کو ملکہ الزبتھ کے ساتھ ایک نجی ملاقات میں اپنا فون بجنے کی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔جب فون بند کر دیا گیا تو ملکہ نے کہا: ’’امید ہے کہ کسی اہم شخص کا فون نہیں تھا۔‘‘
جب ملکہ کی اتفاقاً بالمورل میں اپنے گھر کے پاس ایک سکیورٹی اہلکار کے ساتھ برسات میں چہل قدمی کرتے ہوئے کچھ امریکی سیاحوں سے ملاقات ہو گئی۔سیاحوں نے برساتی کپڑوں میں لپٹی ہوئی ملکہ کو پہچانا ہی نہیں اور باتوں باتوں میں اُن سے پوچھا کہ کیا وہ کبھی ملکہ سے ملی ہیں؟تواُنہوں نے کہا ’’نہیں‘‘‘ اور اپنے سکیورٹی اہلکار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’’مگر یہ ملے ہیں۔‘‘‘
ملکہ نے ایک مرتبہ اپنے کرسمس پیغام میں کہا: ’’ہمیں خود کو بہت زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ ہم میں سے کوئی بھی مکمل طور پر دانا نہیں ہے۔‘ ‘
ہنسنا کسی ٹانک سے کم نہیں لیکن ہمیں بس اتنا یاد رکھنا ہے کہ چاہے کوئی ٹانک ہو،ہم سارا کا سارا منہ میں بیک وقت انڈیل تو نہیں لیتے … اسی مناسبت سے غموں کو پینے اور ہنسنے کا بھی ایک پیمانہ ہوا کرتا ہے … اگر ہم صرف اور صرف ہنستے رہیں تو پھر زمانہ ہمیں پاگل گردانے گا اور عین ممکن ہے کچھ لوگ ہم پر پتھر بھی پھینکنا شروع کردیں…محسن نقوی نے کیا خوب مشورہ دیا ہے :
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
جہاں تک ہنسنے ہنسانے کے معاملے میں ہمارا اپنا حصہ ہے، ہماری زندگی کے دو پہلو ہیں، ایک نہایت سنجیدہ تو دوسرا نٹ کھٹ… تبھی تو معروف مزاح نگار ڈاکٹر سید عباس متقی نے ہم جیسے گل گشت نما انسان کی اندرونی سیر یوں کی ہے:
’’ لیکن جب ہم ان کی شخصیت کو دیکھ کر ان کا لکھا پڑھتے ہیں تو یقین نہیں آتا کہ اتنا خاموش و متین شخص بلا کا شگوفہ طراز ہے۔کسی زاوئیے سے وہ طنز و مزاح نگار معلوم ہی نہیں ہوتے ۔ کم گو، سلیم الطبع اور متین المزاج، لیکن کون جانتا ہے کہ اس بے پناہ سنجیدہ آدمی میں کہیں کوئی ایک بے حد چلبلا شخص بھی بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی وہ طنز و مزاح کے تیر و نشتر سے ساری دنیا کی خبر لے گا۔‘‘
روز سنتا ہوں میں ہنسنے کی صدا
کون یہ میرے سوا ہے مجھ میں
ذکی طارق
دراصل ہمارا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو غم پر اپنا اور خوشی پر دوسروں کا حق سمجھتے ہیں…چنانچہ ہم غم کو ہم دم سمجھ کر ان کا کسی سے ذکر نہیں کرتے اوراپنی حصے میں آنے والی خوشیوں کو اپنوں میں بانٹ کر خوش ہوا کرتے ہیں … جس کی وجہ سے یار لوگ اس غلط فہمی بلکہ خوش فہمی کا شکار ہوچلے ہیں کہ غموں کا ہم سے کوئی یارانہ نہیں اور ہم چین کی بانسری بجائے جارہے ہیں …اور سارے غم ان ہی کا مقدر بنے ہوئے ہیں …جو لوگ ’’ غموں کا دور بھی آئے تو مسکرا کے جیو‘‘ پر یقین رکھتے ہیں، ان کے لیے صدیق مجیبی نے کیا خوب شعر کہا ہے :
میں نے ہنسنے کی اذیت جھیل لی رویا نہیں
یہ سلیقہ بھی کوئی آسان جینے کا نہ تھا
ہم میں سے کون ہے جو کبھی اپنے دوست کے چلتے چلتے پھسل جانے، یا کھڑے ہوتے وقت سر ٹکرانے یا سیڑھیوں پر قدم لڑکھڑانے کے وقت کھلا کھلا کر نہ ہنس پڑا ہو؟چارلی چپلن کا شماران عظیم انسانوں میں ہوتا ہے جو نہ صرف خود پر ہنستے ہیں بلکہ اپنی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے دوسروں کو ہنسانے کا حوصلہ رکھتے ہیں … انہوں نے کیلے کے چھلکے پر پھسل کر گرتے ہوئے فلمی شائقین کو بارہا ہنسایا ہے …دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑا کر خوش ہونے یا ہنسنے والوں کی کمی نہیں لیکن ہم یہاں اس انکشاف پر اپنی بات ختم کرتے ہیں کہ ایک بار ہم اپنی ٹانگ اپنی ہی دوسری ٹانگ میں اڑا بیٹھے اور لڑکھڑا کر گر پڑے…
امید کہ آپ کو اس پر ہنسی آ رہی ہوگی!
۰۰۰٭٭٭۰۰۰