دہلی فسادات کیس: عشرت جہاں اور خالد سیفی کے خلاف الزامات وضع کرنے کی ہدایت

[]

نئی دہلی: ایک عدالت نے 2020ء کے شمال مشرقی دہلی فسادات کیس میں سابق کانگریس کونسلر عشرت جہاں، ”یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ“ کے بانی خالد سیفی اور دیگر 11 افراد کے خلاف الزامات وضع کرنے کا حکم دیا ہے۔

بہرحال عدالت نے تمام 13 ملزمین کو مجرمانہ سازش اور آرمس ایکٹ کے تحت مشترکہ مقصد رکھنے اور ارتکاب جرم میں مدد کرنے کے الزامات سے بری کردیا ہے۔

اسپیشل جج امیتابھ راوت نے جمعہ کے روز جاری کردہ اپنے ایک حکم میں کہا کہ باد النظر میں یہ فرض کرنے کی بنیاد پائی جاتی ہے کہ ملزمین نے تعزیراتِ ہند کی دفعہ 147 (فساد بھڑکانا)، 148 (مہلک ہتھیار سے لیس ہوکر فساد برپا کرنا)، 186 (سرکاری ملازم کے کام میں حارج ہونا)، 188 (سرکاری ملازم کے حکم کی عدم تعمیل)، 332 (سرکاری ملازم کو دانستہ نقصان پہنچانا) اور 353 (سرکاری ملازم کو اپنے فرائض انجام دینے سے روکنے کے لیے حملہ کرنا یا مجرمانہ طاقت کا استعمال کرنا) کے تحت جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

جج نے یہ بھی کہا کہ ملزمین پر تعزیراتِ ہند کی دفعہ 307 (اقدامِ قتل) اور 149 (غیرقانونی طور پر جمع ہونا) کے تحت بھی مقدمہ چلایا جاسکتا ہے تاہم تمام ملزمین کو تعزیراتِ ہند کی دفعہ 34 (مشترکہ مقصد رکھنا)، 120-B (مجرمانہ سازش) اور 109 (ارتکاب جرم میں مدد کرنا) کے الزامات سے بری کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ آرمس ایکٹ کی دفعات کے تحت جرائم کے الزامات سے بھی بری کیا جاتا ہے۔ عدالت نے ملزمین پر مقدمہ قائم کیا اور کہا کہ چارج شیٹ کے مشمولات اور گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر بادالنظر میں ان کا رول ثابت ہوتا ہے۔

یہ بات ریکارڈ پر آچکی ہے کہ 26 فروری 2020ء کو تقریباً 12:15 بجے دن ایک بلوائی مسلح ہجوم (غیرقانونی طور پر جمع ہونا) جس میں ملزمین بھی شامل تھے تاکہ اپنا مشرکہ مقصد حاصل کرسکیں، اکٹھا ہوا تھا اور منتشر ہوجانے کے لیے پولیس کی ہدایت کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔

اس نے پولیس عہدیداروں پر سنگباری اور حملہ کیا تھا۔ انھیں اپنے سرکاری فرائض انجام دینے سے روک دیا گیا تھا اور کانسٹبل ایچ سی یوگراج کے سر پر بندوق سے گولی بھی چلائی گئی تھی۔ استغاثہ کے مطابق یہ واقعہ شمال مشرقی دہلی کے کھریجی خاص علاقہ کی مسجد والی گلی میں پیش آیا تھا۔

عدالت نے اس بات کو اجاگر کیا کہ الزامات وضع کرنے کے مرحلہ میں صرف بادئ النظر میں بننے والے کیس پر غور کیا جاسکتا ہے اور ملزمین کے خلاف شکوک و شبہات مقدمہ چلائے جانے کے بعد ہی دور کیے جاسکتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ عینی شاہدین اور متاثرہ شخص ایچ سی یوگراج (علاقہ کے بیٹ کانسٹبل) نے مصرحہ طور پر پہلے دستیاب موقع پر جب اس نے واقعہ پیش آنے کے فوری بعد ایف آئی آر درج کرانے کے لیے بیان دیا تھا، تمام 13 ملزمین کا نام لیا ہے۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *