اہل بیت اطہار کی محبت کمالِ ایمان کی دلیل

[]

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی (شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)

ایمان کا تعلق عقیدہ ‘عمل ٗمحبت سے ہے خالص عمل ہی کا نام ایمان نہیں بلکہ عمل کے لئے اعتقاد ضروری ہے، اعتقاد کے بغیر کوئی بھی عبادت بارگاہـ الٰہی میں قابل قبول نہیں ۔ عبادتوں کا تعلق عمل سے ہے جیسے: نماز ‘ روزہ‘ زکوۃ‘حج وغیرہ ان سب کا تعلق عمل و فعل سے ہے۔ عقیدہ کا تعلق دل سے ہے جیسے اللہ ‘رسول ‘آسمانی کتابوں ‘ملائکہ وغیرہ پر ایمان لے آنا ایسے ہی محبت کا تعلق دل سے ہے شریعت مطھرہ نے جہاں اہل اسلام کو عمل ‘عقیدہ کا حکم دیا وہاں محبت کا بھی حکم دیا چنا نچہ سورہ توبہ میں رب العزت کا فرمان ہے (اے حبیبؐ ) تم کہہ دو کہ اگر تمہارے با پ اور بیٹے اور بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے خاندان کے آدمی اور وہ مال جو تم کماتے ہو اور وہ تجارت جس کے بندہونے سے ڈرتے ہو اور تمہارے رہنے کے مکانات جن کو تم پسند کرتے ہو ( اگریہ ساری چیزیں )تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیاری ہیں تو تم انتظار کرو ،یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم بھیجے اور اللہ نافرما ن لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا (سورہ تو بہ ۲۴)

اس آیت کریمہ میں صاف طور پر یہ واضح کر دیا گیا کہ اگر اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کے مقابلے میں دنیوی اسباب کی محبت غالب ہو تو کبھی بھی کامیابی کی راہیں نہیں کھل سکتیں، محبت کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ ورسول جن سے محبت کرتے ہیں ان سے محبت کی جائے اور یہ جن سے نفرت کرتے ہیں ان سے نفرت کی جائے اور اللہ و رسولؐ جن سے محبت کرنے کا حکم دیں ان سے محبت کریں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں سے محبت کا حکم دیا : قُل لَّا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبَی (سورہ شوری) (اے حبیبؐ)آپ کہہ دو کہ (اے مومنوں )میں تم سے اس (ہدایت وتبلیغ)کے بدلے کچھ اجرت نہیں مانگتا سوائے رشتے داروں کی محبت کے ۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے حضورؐکی بارگاہ میں عرض کی یا رسول اللہ ﷺ !آپ کے قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ؟ تو آپ ؐنے فرمایا: علي و فاطمۃ وابنا ہما: علی اور فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے (حسن حسین رضی اللہ عنھم)ہیں۔

یہ اہل بیت ہیں انکی محبت اہل اسلام پر لازم ہے چنانچہ رحمت ِعالم صلی اللہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لا یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من نفسہ ۔۔ الخ (ابن حبان، شعب الایمان) تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اسکی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں اورمیرا خاندان اس کے نزدیک اس کے خاندان سے زیادہ محبوب نہ ہوجائے اور میری ذات اس کے نزدیک اسکی ذات سے زیادہ محبوب نہ ہوجائے ۔ اس حدیث شریف سے بالکل واضح ہے کہ ہر بندہ مومن پر لازم ہے کہ وہ اپنے خاندان سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے محبت کرے۔

اہل بیت ِ عظام کی تعظیم وتکریم ہر مسلمان پر لازم ہے، ان کی شان میں گستاخی وبے ادبی شافع ِمحشر قاسمِ کوثر رحمت عالم ﷺ کی ناراضگی کا باعث ہے ، ان سے بغض وعناد دنیا وآخرت کی بربادی کا سبب ہے، ان سے عداوت ودشمنی رب العالمین کے عذاب کو دعوت دینا ہے، ان کی محبت ایمانیات سے ہے چنانچہ رسول ِ اعظم ﷺ نے دربارِ خداوندی میں حسنین کریمین کیلئے دعاء مانگی: اللھم اِني أحبھما فأحبھما (بخاری) :

اے اللہ میں ان دونوں(حسنین )سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما۔ یہ حقیقت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر دعا قبول ہوتی ہے کوئی دعا رد نہیں ہو تی، آپ نے دعا مانگی اے اللہ حسنین کریمین سے محبت فرما اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کی دعا کو اس طرح قبول کیا کہ دنیا میں ہر مسلمان کے دل میں حسنین کریمین کی محبت ڈال دی ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے : جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کسی بندے سے محبت کر تاہے تو دنیا والوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دیتا ہے اور یہ محبت زمانوں کی قید سے آزاد ہوتی ہے اسی لئے رہتی دنیا تک جاری وساری رہتی ہے،دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جو مسلمانی کادعویٰ کرے اور اسکا دل اہل بیت کی محبت وعظمت سے خالی ہو اگر کسی کا دل اہل بیت کی محبت وعظمت سے خالی ہے تو اس نے اپنے ایمان کی تکمیل نہیں کی ۔ یقینا نواسہ رسول ؐ کی محبت ایمان کی تکمیل ہے، اہل بیت کرام کا ذکر کرنا وسننا ان سے محبت کی علامت ہے۔

ترمذی شریف میں ہے:حضرت اسامہ بن زید فرماتے ہیں کہ میںنے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حسن وحسین دونوںکولیے ہو ئے فر مارہے تھے : یہ دونوں میرے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں اے اللہ ! میں انکو محبوب رکھتاہو ں تو بھی انکو محبوب رکھ اور اسکو بھی محبوب رکھ جو انکو محبوب رکھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے دعاء کی کہ پروردیگار حسنین کریمین سے میں محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما تو اللہ نے اس دعاء کو قبول کرتے ہوئے اپنی محبت کا اظہار اس طرح فرمایا کہ حسنین کریمین کو جنتی نوجوانوں کا سرداربنا دیا چنانچہ حدیث شر یف ہے:

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فر ما تے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ میں مغرب کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھوں گا اور اپنے اور تمہارے لیے بخشش کا سوال کروں گا ‘پس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرہوا اور آپ کے ساتھ مغرب کی نمازپڑھی۔یہاںتک کہ عشا بھی پڑھی ۔پھر آپ مسجد سے نکلے ، میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلا ، آپ نے میرے چلنے کی آواز سنی تو فرما یا ‘کیا تم حذیفہ ہو ؟ میں نے عر ض کیا ہاں یا رسول اللہ ! فرمایا : تمہاری کیا حاجت ہے ؟ اللہ تمہارے اور تمہاری والدہ کے گناہوں کو معاف کردے (پھر )فرمایا کہ آج رات ایک فرشتہ آیا تھا، جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نازل نہیں ہوا ۔ اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور مجھے یہ خوشخبری دینے کیلئے اجازت مانگی ہے کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردارا اور حسن و حسین جنتّ کے نوجوانوں کے سر دار ہیں ۔

اللہ تعالیٰ جن بندوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے دنیا میں انہیں سخت آزمائش کی منزلوں سے گذارتاہے امام حسین واہل بیت عظام کی شہادت اس پر شاہد ہے امام عالی مقام نے اسلام کی بقا کی خاطر اپنی اور اپنے خاندان کی ایسی قربانی پیش کی کہ سابق میں اسکی مثال نہیں ملتی چنانچہ ۶۰ہجری کے آخر میں ظالم یزید تخت نشین ہوا تو اس نے سب سے پہلے احکام جاری کئے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ‘حضرت عبد اللہ بن زبیر ‘ حضرت عبداللہ بن عباس ‘حضرت امام حسین رضی اللہ عنھم سے بیعت لی جائے ۔

ان جلیل القدر صحابہ نے یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا چونکہ وہ جانتے تھے یزید ظالم‘ فاسق وفاجر ہے اگر ہم اس کے ہاتھ پر بیعت کرلیں تو تمام لوگ اس کے ہاتھ پر بیعت کرلینگے پھر فسق وفجور عام ہو جائیگا اس لئے انہوںنے بیعت سے انکار کیا، جب کوفہ والوں کو معلوم ہواکہ حضرت امام حسین ؓنے یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار کردیاہے تو اہل کوفہ نے امام عالی مقام کو ان کے دست حق پرست پر بیعت کرنے کے لئے انہیں خطوط کے ذریعہ دعوت دی ۔ خطوط کی تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے تاہم ۱۵۰ خطوط کی تعداد پر سب کا اتفاق ہے، خط عموماً اس مضمون کے ہوتے تھے کہ آپ جلد ازجلد کوفہ تشریف لائیں ‘مسندِ خلافت آپ کے لئے حاضر ہیں ۔سب کے سب آپ کی آمدکے منتظر اور دیدکے مشتاق ہیں ۔ آپ کے سوا ہمارا کوئی پیشوا اور امام نہیں ۔آپ کی مدد کے لئے لشکر موجود ہے ۔ کوفہ کے حاکم (گورنر) اس وقت نعمان بن بشیر ہیں۔ ہم ان کی اِمارت میں جمعہ اور عیدین کی نمازپڑھنے نہیں جاتے ،جب آپ تشریف لائیںگے تو ہم ان کو معزول کر کے آپ کو اپنا خلیفہ تسلیم کرلیں گے ۔

حضرت امام حسینؓ کے پاس جب اس قسم کے مضمون پر مشتمل خطوط پہنچے تو آپ کی حمیت اسلامی اور غیرت دینی ِجوش میںآگئی ۔ آپ نے ایک فاسق وفاجر‘ ظالم وجابر حاکم کے ظلم واستبداد کے شکنجے سے عوام کو آزادی دلانے کا ارادہ کیا۔ حضرت امام حسین ؓ مکہ معظمہ سے آٹھ ذی الحجہ کو کوفہ کی طرف روانہ ہوئے ۔سفر کرتے کرتے نینوا کے میدان میں بتاریخ ۲محرم الحرام ۶۱ھ بروز جمعرات اپنے ساتھیوں اور اہل و عیال سمیت خیمہ زن ہوگئے۔ کربلا پہنچتے ہی حضرت امام حسینؓ کو حضور نبی کریم ﷺ کے وہ فرامین یاد آرہے تھے جو آپ نے فرمائے تھے ۔

بچپن کے زمانے کی یادیں اور حضور ﷺ کی دی ہوئی بشارتیں آپ کی نگاہوں کے سامنے گھوم گئیں ۔ آپ کو بچپن کا وہ لمحہ یاد آگیا جب ام المومنین حضرت ام سلمہؓکی روایت کے مطابق آپ ان کے گھر میں اپنے بڑے بھائی حضرت حسن ؓکے ساتھ جناب رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھیل رہے تھے کہ جبرئیل امین ؑ نازل ہوئے اور کہا ’’اے محمد ! ﷺ بے شک آپ کی امت میں سے ایک جماعت آپ کے اس بیٹے حسین ؓ کو آپ کے بعد شہید کر دے گی‘‘یہ کہکر حضور ﷺ کو حضرت حسینؓ کی جائے شہادت کی تھوڑی سی مٹی دی ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس مٹی کو سونگھا اور فرمایا کہ ’’اس میںرنج و بلا کی بو آتی ہے ۔‘‘ پھر حضورِ اکرم ﷺ نے حضرت امام حسینؓ کو اپنے سینے سے چمٹا لیا اور رو دئیے ۔پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے ام سلمہ ؓ ! جب یہ مٹی خون میں بدل جائے تو جان لینا کہ میرا حسین شہید ہوگیا ہے ۔

حضرت ام سلمہ ؓ نے اس مٹی کو بوتل میں رکھ لیا تھا ۔ وہ ہر روز اس کو دیکھتیں اور فرما تیں کہ ’’جس دن یہ مٹی خون ہو جائے گی تو وہ دن عظیم دن ہوگا ۔‘‘ یہی وہ میدان تھا جس کی نسبت حضرت امام عالی مقام ؓ کے والد ماجد حضرت علی ؓ مرتضیٰ نے فرمایا تھا ۔ یہ ان (حسین ؓ اور ان کے قافلے ) کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے خون کا مقام ہے ۔ آل محمد ﷺ کا ایک گروہ اس میدان میں شہید ہوگا جس پر زمین وآسمان روئیں گے ۔چونکہ میدان کر بلا اور حضرت امام عالی مقام کی شہادت کے بارے میں بشارتیں پہلے سے دی جا چکی تھیں اس لئے امام عالی مقام نے اس میدان کو اپنے سفر کا منہتی سمجھ کر خیمے لگادئیے ۔ قافلہ حسینی ؓ غریب الوطنی کے عالم میں کر بلا کے میدان میں خیمے زن تھا ۔ دوسری طرف یزیدی حکومت ان نفوس قدسیہ پر قیامت برپا کرنے کی بھر پور تیاریوں میں مصروف تھی ۔ چنانچہ ۳محرم الحرام کو عمرو بن سعد چار ہزار سپاہیوں کے ساتھ مقابلہ کے لئے کوفہ سے کربلا پہنچ گیا۔

دس محرم ۶۱ھ کا آفتاب طلوع ہوا، عمرو بن سعدنے اپنے ساتھیوںکے ساتھ فجر کی نمازپڑھ لی تو جنگ کے لئے تیار ہو گیا۔ حسینی فوج کے بہتر (۷۲) جانثاروں نے حضرت امام حسین ؓ کی امامت میں فجر کی نمازادا کی اور یزیدی فوج کے مقابلے کے لئے کر بلاکے میدان میں صف آرا ہوگئے۔یہ جانثاربتیس(۳۲)گھوڑ سواروںاور چالیس (۴۰) پیادوں پر مشتمل تھے۔جب جنگ شروع ہوئی تو غلامانِ اہل بیت یکے بعد دیگرے شہادت کا جام نوش کرتے گئے، پھر ظالم یزیدی لشکر نے اہل بیت عظام میں سے حضرت علی اکبر ؓ حضرت عبد اللہ بن مسلم بن عقیل حضرت عبد اللہ بن جعفر کے دو بیٹے عون اور محمد حضرت عقیل بن ابی طالب کے دو بیٹے عبد الرحمن اور جعفر اور قاسم بن حسن ؓ یکے بعد دیگرے کو بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔خاندان نبوت کے افراد یکے بعد دیگرے جامِ شہادت نوش کر رہے تھے۔حضرت امام حسین ؓ اپنے رب کی رضا پر شاکر‘ سراپا تسلیم ورضا کا پیکر بنے اپنے خیمے کے دروازے پر بیٹھے تھے۔

اسی دوران آپ کے سب سے چھوٹے صاحبزادے (جن کا نام عبداللہ علی اصغر ؓ تھا) کو آپ کے پاس لایا گیا آپ نے انہیں گود میں لے لیا اور انہیں چومتے اور پیار کر تے رہے۔ پھر آپ اپنے اہل وعیال کو وصیتیں کرنے میں مشغول ہو گئے۔ اسی اثنا میں بنی اسد کے ایک شخص نے جسے ابن موقد النار کہتے تھے ‘ایک تیر چلا یا اور ننھے علی اصغر کو امام عالی مقام ؓ کی گود میں شہید کردیا۔اہل بیت نبوت کے افراد جب ایک ایک کر کے شہادت پاگئے تو آخر میں حضرت امام حسینؓ نے میدانِ کارزار میں آنے کا ارادہ فرمایا۔حضرت زین العابدینؓجو اس وقت بیمار تھے ‘ امام عالی مقام کے پاس آئے اور عرض کیا ’’ابا جان ! میرے ہو تے ہوئے آپ میدانِ جنگ میں جائیں یہ مجھے گوارا نہیں میں بھی اپنے با قی بھائیوں کی طرح اپنے نا نا جا ن کا دیدار کرنا چاہتا ہوں۔ اب جامِ شہادت نوش کرنے کی میری با ری ہے۔

آپ نے فرمایا بیٹے تم میدان جنگ میں نہیں جائو گے کیو نکہ خانوادہ رسول ﷺ کا ہر چراغ گل ہو چکاہے ‘اس چمنستانِ کرم کاہر پھول مرجھاچکا ہے۔اب میری نسل میں فقط تم ہی باقی رہ گئے ہو۔ مجھے تو شہید ہونا ہی ہے اگر تم بھی شہید ہوگئے تو میرے نا نا کی نسل کیسے چلے گی ؟تمہیں اپنے نانا کی نسل کی بقاء کیلئے زندہ رہنا ہے۔‘‘چنانچہ حضرت امام حسین ؓ امام زین العا بدین کو چھوڑ کر خود میدان کربلا میں اترے میدانِ جنگ میں آپ دیر تک یزیدیوں کو واصل جہنم کر تے رہے۔ شجاعت اور بہادری کے آپ نے ایسے جوہر دکھائے کہ پورے یزیدی لشکر میں کہرام مچ گیا۔ حضرت علی شیر خدا ؓکا یہ بیٹا تلوار لے کر جس طرف نکل جاتا یزید ی لشکر خوف زدہ بھیڑوںکی طرح مارے خوف کے اپنی جان بچانے بھاگنے لگتا۔ مشہور شاعر حفیظ جالندھری نے آپ کی دلیری‘ شجاعت وبہادری کو بیان کرتے ہوئے کیا خوب کہا:

یہ جس کی ایک ضرب سے کمال فن حرب سے
کئی شقی گرتے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نور عین ہے

یزیدیوں نے آپ پر تیروں کی بوچھار کر دی، اچانک ایک تیر آیا اور آپ کے سینے میں پیوست ہوا، آپ کا جسم تیر اور تلواروں سے چھننی ہو چکا تھا، آپ نے حالت ِ سجدے میں جامِ شہادت پیتے ہوئے دارِ فانی سے دارِ باقی کی طرف چل بسے۔
٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *