[]
مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786
بابری مسجد کی شہادت ملک کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے جس نے ہندو مسلم کے درمیان نفرت کا زہر گھولا ہے ،سیاسی مقصد براری کے لئے اس مسجد کواستعمال کیا جاتا رہاہے ، ۶؍ڈسمبر ۱۹۹۲ء کواترپردیش کے ایودھیا میں واقع تاریخی بابری مسجد کو شرپسندوں نے شہید کر دیا تھاجس کو تقریبا ۳۱؍سال سےزائد کا عرصہ ہوچکاہے۔ یہ وہ تاریخی مسجد ہے جو مغل بادشاہ ظہیر الدین محمد بابر کے عہد میں اودھ کے گورنر میر باقی اصفہانی نے تعمیر کروائی تھی جس میں ۱۹۴۹ء تک اذان کی صدابلند ہوتی رہی اور مسلمان نماز ادا کرتے رہے ہیں ،۴۲۱؍سالہ اس قدیم بابری مسجد میں ۲۲،۲۳ دسمبر کی رات چند شر پسند عناصر نے مسجد کے درمیانی گنبد کے عین محراب میں رام اور دیگر مورتیاں رکھ دیں، پھر ۶؍دسمبر۱۹۹۲ روزیکشنبہ بابری مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔
ہندو انتہاپسندوں کا دعویٰ تھا کہ بابری مسجد ہندو دیوتا رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کی گئی تھی اسی تنازعہ کے باعث ۱۸۵۹ء میں انگریز حکومت نے بابری مسجد کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اندرونی حصہ مسلمانوں کیلئے اور بیرونی حصہ ہندوؤں کیلئے۔ ۱۹۴۹ء میں اچانک ایک منصوبہ کے تحت ہندوؤں نے دعویٰ کیا کہ مسجد سے مورتی برآمد ہوئی ہے جس کی وجہ ملک میں فسادبرپا ہوا، جس پر حکومت نے مسجد کو بند کر دینے کا فیصلہ لیا ،ہندو انتہاء پسند اپنی منصوبہ بند سازش کو آگے بڑھاتے رہے اس طرح ۱۹۸۴ء میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی مہم چلائی۔ بظاہر اس مہم کے روح رواں لال کرشن اڈوانی تھےجنہوں نے رتھ یاترا نکالی تھی لیکن اس سازش کے درپردہ کئی انتہاء پسند ہندو سیاسی و مذہبی قائدین تھےجو مسجد کو شہید کروانے میں اپنا رول ادا کر رہے تھے جس سے پر امن فضاء مکدر ہو گئی تھی ۔
دریں اثناء ۱۹۹۱ میں اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی پھر کیا تھا ہندو انتہاء پسند طاقتوں کو اپنی ناپاک سازشی منصوبہ کو روبہ عمل لانے کا موقع مل گیا ، چنانچہ ۶ دسمبر۱۹۹۲ء کو انتہاپسند ہندوؤں نے مسجد شہید کر دی پھر ایک بار ہندو مسلم فسادات نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس میں سینکڑوں انسانی جانیں ضائع ہوئیں ،اس سانحہ نے ملک کی جمہوری شناخت مجروح کردی ۔ہندو مسلم جہاں رواداری ،آپسی میل ملاپ ،محبت وبھائی چارہ کے ساتھ رہا کرتے تھے اس پرایک کاری ضرب لگ گئی ،یہ ایک ایسا مہلک گھائو تھا جو آج تک مندمل نہیں ہو سکا ہے ۔
بعض انتہاء پسند ہندو قائدین جیسے اس وقت کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ، شیوسینا کے سربراہ بال ٹھاکرے اورایل کے ایڈوانی،وی ایچ پی کے جنرل سکریٹری اشوک سنگھل ، بجرنگ دل لیڈر ونئے کٹیار، اوما بھارتی، سادھوی رتمبھرا، مرلی منوہر جوشی، گریراج کشور اور وشنو ہری ڈالمیا وغیرہ کے علاوہ اور کئی ایک کیخلاف مقدمات درج ہوئے تھے لیکن ان مقدمات کا وہی حشر ہوا جو عام طورپر اکثر مقدمات کا ہوتا ہے ، بابری مسجد کی شہادت کے۲۸سال بعد وہ تمام ملزمین باعزت بری کر دئیے گئے، اس میں عدالتوں سے زیادہ قصوروار وہ ہندو انتہاء پسندامن وقانون کی حفاظت کے رکھوالے ہیں جوملزمین کے جرائم کی صداقت پر مبنی تفصیلات عدالتوں تک پہونچانے میں مجرمانہ کردار ادا کرتے ہیں ، ظاہر ہے پیش کردہ حقائق کی روشنی میں عدالتیں فیصلہ دیتی ہیں جس سے مجرمین کو چھوٹ ملتی ہے اور جس کی وجہ انتہاء پسند طاقتوں کی جرأتیں اور بڑھتی ہیں اور مجرمانہ کلچر کو فروغ ملتا ہے ۔ بابری مسجد کی شہادت کوئی ڈھکا چھپا سانحہ نہیں ہے ،یہ تو دن کے اجالے میں کیا گیا ناقابل معافی جرم ہے جس کا ساری دنیا مشاہد کر رہی تھی ۔
مندر مسجد کے اس پرانے تنازعے کا فیصلہ سنانے والے بینچ کی صدارت چیف جسٹس رنجن گوگئی کر رہے تھے، باقی چار ججوں میں جسٹس شرد اروند بوبڈے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس ایس عبدالنظیر شامل تھے۔
مندر کے حق میں دئیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ تسلیم کیا گیا کہ میر باقی نے۱۵۲۸ء میں اس مسجد کی تعمیر کی ہے۔ ۱۶ دسمبر۱۹۴۹ تک اس مسجد میں نمازیں ادا کی جاتی رہی ہیں،اس کے بعد مسلمانوں کو مسجد میں داخلہ سے روک دئیے جانے کا عمل قانون کے تحت نہیں تھا۲۲-۲۳ دسمبر ۱۹۴۹ء کواس میں مورتیاں رکھنا غیر قانونی تھا۔ گنبد کے نیچے کی زمین کا رام جنم استھان ہونا ثابت نہیں ہوا،۶ دسمبر۱۹۹۲ء کو مسجد گرایا جانا غیرقانونی تھا، یہ بھی کہ یہاں پہلے کوئی مندر نہیں تھی کہ اسے توڑ کر مسجد بنائی گئی ہو، یہ وہ حقائق ہیں جو مسجد کے حق میں ہیں یہی وجہ ہے کہ مسلمان عدالت العالیہ سے پرامید تھے کہ فیصلہ بابری مسجد کے حق میں آئے گا، لیکن کیا کیا جائے کہ مسجد کے حق میں قانونی دستاویزات ،ثبوت وشواہد کے باوجود ’’آستھا ‘‘ کی بنیاد پرفیصلہ سنا دیا گیا لیکن مسجد کے بارے میں مسلمانوں کی جو مذہبی اورقلبی وابستگی ہے اس کا خیال نہیں رکھا گیا ۔
اس واقعہ کو گزرے۳۱ سال ہوچکے ہیں، لیکن مسلمانوں اورجمہوریت پسند غیر مسلم بھائیوں کے دلوں میں اب بھی اس کا زخم تازہ ہے، ہر سال جب بھی ۶؍دسمبرکی تاریخ آتی ہے توبابری مسجد کی شہادت کا غم تازہ ہو جاتا ہے ،ظلم وجور کے جو بد ترین واقعات تاریخ میں رقم ہوتے رہے ہیں ان میں یہ غمناک سانحہ ضرور شامل ہوگا۔ مسجد کی شہادت کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ،مسجد کی نسبت سے اس کی زمین ،اس کے درودیوار مسلمانوں کے لئے قابل قدر و عظمت ہیں ، مسجد کی شہادت کرئہ ارض پربسنے والے سارے مسلمانوں کے جذبات واحترام کا خون ہے، مسجد کی عمارت تو شہید کر دی گئی ہے لیکن مسجد کی پاکیزہ اور مقدس سر زمین زبان حال سے آج بھی نوحہ کنا ںہے ،خون کے آنسو رو ر ہی ہے کہ جہاں الہ واحد کی بارگاہ قدس میں جبین نیاز جھکائی جاتی تھی اور معبود بر حق کی بندگی بجا لاتے ہوئے جو ایمان والوں کی سجدہ ریزیوں سے منور تھی جہاں اللہ سبحانہ کی حمد وثناء بیان ہوتی تھی ، نمازی جہاں اللہ سبحانہ کی تسبیح وتہلیل میں مصروف رہا کرتے تھے ،جس کے منبر ومحراب سے حق کا کلام نشر ہوتا تھا ، کیا اب وہاں بتوں کی پرستش ہوگی ،اللہ سبحانہ کے پاکیزہ کلام کی جہاں تلاوت ہوا کرتی تھی کیا اب وہاں بھجن گائے جائیں گے اور کیا مرکز توحید میں مشرکانہ رسومات ادا ہوں گے ، ظاہر ہے بابری مسجد کی روح بے چین و مضطرب ہے ،اس کے درد وکرب کو محسوس کرنے کے لئے دل بینا اور اس کی آہ وبکا کو سننے کے لئے گوش ہوش چاہیے ۔
بابری مسجد کی شہادت سے صرف مسلمانوں کے دل مجروح نہیں ہوئے بلکہ ہر درد مند انسان دوست متفکر و مغموم ہوئے ہیں ، نوک قلم سے جس کا اظہار ممکن نہیں ہے ،شہریان ہند ہی نہیں بلکہ کرئہ ارض پررہنے بسنے والے اکثر افراد انسانیت اس کو حد درجہ نا انصافی سے تعبیر کرتے ہیں ۔
انگریزوں کے ظالمانہ چنگل سے ملک کو آزاد کرانے میں مسلمانوں نے جو نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے ، ملک کی آزادی کے بعد مسلمانوں نے جو خواب بنے تھے وہ یہی تھے کہ مسلمان پوری آزادی کے ساتھ اپنے مذہب کے اصول واقدار ،تہذیب وثقافت کی بقاء کے ساتھ ابنائے وطن کے ساتھ اس ملک میں رہیں گے ،ان کے ساتھ کوئی بھید بھائو نہیں کیا جائے گا ، ان کی عبادت گاہوں کو کامل تحفظ حاصل ہوگا ۔ اپنے اقلیتی کردار کی حفاظت کے ساتھ اپنے تعلیمی ورفاہی اداروں کے قیام میں آزاد رہیں گے، چنانچہ ملک کا دستور ان سب کا تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن افسوس! آگے چلتے چلتے یہ سارے خواب چکنا چور ہوتے جارہے ہیں ، آزادی کی جنگ میں مسلمانوں نے اس لئے اپنی جان ومال اورگھربار کی قربانیاں نہیں دی تھیں کہ ملک کو ہندوراشٹربنایا جائے ۔
مسلمان اسلام اورشعائر اسلام کو عزیز از جاں رکھتے ہیں اورملک کے دستور کا احترام بھی کرتے ہیں چونکہ آزادی کے بعد جو دستور مدون ہوا اس میں مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون منظور ہ ۱۹۹۱ء جس کے تحت ۱۵ ؍اگست ۱۹۴۷ ءتک موجود تمام عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے ۔ جو عبادت گاہیں جہاں تعمیر ہیں ان کی حفاظت کی جائے گی اورکسی کو بھی ان مقدس مقامات سے چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہیں ہوگی لیکن افسوس آئے دن ایسے واقعات سوہان روح بنے ہوئے ہیں۔
اس وقت مسلمان ملک کی دوسری سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود تعلیم، روزگار، صحت اور سیاسی نمائندگی کے اعتبار سے سب سے پیچھے ہیں ، زندگی کے سارے شعبوں میں سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں ، ہجومی تشدد اور فرضی گائو رکھشکوں کی وجہ مسلمان سخت ابتلاء وآزمائش میں ہیں ، شجاعت وبہادری یہ نہیں ہے کہ نہتے بے قصور ایک یا چند مسلمانوں پر ایک جم غفیر ہلہ بول دے اور ان کی جان کے درپے آزار ہو جائے ، ہندو مذہب کے پرستار ہونے والے دعویداروں کا مذہب کیا اس بات کی اجازت دیتا ہے ان کو ٹھنڈے دل سے غورکرنا چاہیے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ امن وقانون کے رکھوالوں کی بھی درپردہ ان کو حمایت حاصل ہے۔ ظاہرہے ظلم وجور ،تعصب و دشمنی ، بہیمیت و جہالت کے جو واقعات مسلسل دہرائے جارہے ہیں وہ انسانیت کے لئے باعث ننگ وعار ہیں ۔
بلڈوزر کی سیاست نے آبادیوں کی آبادیاں تہس نہس کردی ہیں جن میں مساجد ،مکاتب ومدارس بھی شامل ہیں ، سوشل میڈیا اور اکثر ٹی وی چیلنس بھی زہر افشانی میں مصروف ہیں ، کئی ایک فرقہ پرست عناصر مسلمانوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ مساجد خاموشی کے ساتھ ان کے حوالہ کر دیں ۔الغرض نفرت کا ایک لاوا ہے جو آتش فشاں کی صورت میں ہرجگہ پھٹ رہاہے ۔
ایسے میں ۲۲؍جنوری کوبابری مسجد کی جگہ رام مندر کی افتتاحی تقریب کا انعقادپھر وزیر ا عظم کے ہاتھوں اس کا افتتاح گویا اس بات کا خاموش اعلان ہے کہ ملک میں فرقہ پرست عناصر جو کچھ دستور وقانون اور انسانی اعلی اقدار کے خلاف فرقہ پرستی کا زہرپھیلا رہے ہیں وہ درست ہے ۔ مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھائی بھی اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ رام مندر کا افتتاح نہ تو رام کی محبت میں ہے نہ ہی ہندو مذہبی اقدار کے مطابق ہے بلکہ ایک سیاسی حربہ ہے ۔
چنانچہ کانگریس لیڈر سام پترودا نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا رام مندر ہی اصل مسئلہ ہے؟ان کا مانناہے کہ تعلیم، روزگار، معیشت، مہنگائی اور صحت کے مسائل اس سے بڑے اور اہم ہیں، ہندو ہونے کے ناطے انہوں نے کہا کہ مجھے کسی مذہب سے کوئی مسئلہ نہیں ہے کبھی کبھار درشن کے لئے مندر جانا ٹھیک ہے، لیکن آپ اسے مرکزی سٹیج نہیں بنا سکتے۔۴۰ ؍فیصدشہری بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیںجبکہ۶۰ فیصد شہری بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے۔ظاہر ہے ملک کے وزیر اعظم سب کے ہیں وہ کسی ایک پارٹی کے نہیں ،ہندوستانی عوام وزیر اعظم سے یہی چاہتے ہیں ۔
اسلام امن وآمان کا علمبردار ہے ، وہ انسانوں کی جان ومال ، عزت وناموس کی حفاظت کو اولین ترجیح دیتا ہے ، اسلام کا قانون ظلم کرنا نہیں سکھاتا لیکن ظالموں کو کھلی چھوٹ دینے کا وہ طرفدار نہیں ہے ،وہ چاہتا ہے کہ مجرم کو اس کی جرم کی مناسبت سے ضرور سزا دی جائے تا کہ جرائم کے ارتکاب کی روک تھام ہو ۔ جرائم کے واقعات پر چشم پوشی گویا جرائم کو فروغ دینا ہے ، مجرموں کی اگر حوصلہ افزائی ہو رہی ہو تو اس کے معنی یہی ہوں گے کہ جرائم پر روک لگانا مقصود نہیں ہے ۔ جس ملک یا معاشرہ میں امن وسکون نہ ہو، محبت و بھائی چارہ نہ ہو وہ انسانی سماج کہلانے کے لائق نہیں رہتا ، جرائم کا انسداد ہی ملک و معاشرہ کو امن وآمان کا گہوارہ بناتا ہے ، وہی معاشرہ لائق تحسین ہوتا ہے جہاں نفرت و عداوت کا کوئی گزر نہ ہو ، نیکی و صالحیت ہو ، اصلاحی سرگرمیاں تیز سے تیز تر ہوں۔
اس وقت ملک کے مسلمان بڑے نازک حالات سے گزر رہے ہیں ، قدم قدم پر ان کے ایمان کا امتحان ہے ، اسلام دشمن عناصر ان کی راہ میں مزاحم ہیں ، ایمان پر استقامت ،آپسی اتحاد واتفاق ہی سے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسلامی اقدار اور اسلامی تہذیب وتمدن کی حفاظت مسلمانوں کا اولین فریضہ ہے ، اللہ سبحانہ کار ساز حقیقی ہے ، اسی کی طاقت و قدرت ہر وقت ، ہرجگہ کارفرما ہے ، اسی پرکامل توکل و اعتماد ہی کامیابی کی کلید ہے ۔
مسجد جب تعمیر ہوجائے تو پھر وہ ابدالآباد تک مسجد رہتی ہے ، تحت الثری سے آسمان کی بلند یوں تک وہ سر زمین مسجد کا حکم رکھتی ہے ، ا سے کہیں منتقل نہیں کیا جاسکتا ، اللہ سبحانہ اوریوم آخرت پرایمان رکھنے والے مساجد تعمیر کرتے اوران کو آباد رکھتے ہیں (التوبہ ؍۱۸)۔مساجد میں اللہ سبحانہ کی یاد اوراس کے ذکر سے روکنا اس کی ویرانی میں کوشاں رہنا ان کا کام ہے جو اللہ سبحانہ کے باغی ،سرکش اور ظالم ہیں‘‘ (البقرہ؍۱۱۴)۔
بابری مسجد کی شہادت مسلمانوں کو یہ پیغام دےرہی ہے کہ وہ مساجد کوآباد رکھیں ، اور مساجد کاجو اسلامی کردار ہے اس کو بحال کریں ، مساجد اسلامی معاشرہ کااہم ستون اور قابل تقدیس ادارے ہیں اس کو سمجھنا ہو تو چودہ سو سال قبل کی مسجد نبوی کی تاریخ دیکھنی ہوگی اوراس کی روشنی میں از سر نو مساجد کا نظام ترتیب دینا ہوگا ۔ ظاہر ہے مساجد صرف نماز ادا کرنے کےلئے نہیں ہیں بلکہ ا نفرادی ،اجتماعی ،معاشی ، معاشرتی ، سماجی و سیاسی تمام امور مساجد میں حل ہوں ۔ اللہ سبحانہ مساجد کی حفاظت فرمائے اور مسجد نبوی کی روشنی میں مساجد کے نظام کو از سر نو تربیت دینے کی مسلمانوں کو توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
٭٭٭