[]
مولانا محمد ممشادعلی صدیقی
بانی وناظم ادارہ مبین العلوم قاسمیہ
Mobile No. 9030825540
رب کریم ‘روف و رحیم کا انعامات لامحدود کا جتنا بھی حمد وستائش کی جائے یقینا کم ہی رہے گا کیونکہ تخلیق کردہ تمام مخلوقات کیلئے ہمہ اقسام کی ضروریات کو پیدا کرتے ہوئے خوش وخرم دنیاوی زندگی کو تکمیل کرنے کی راہ ہموار کیا۔اس میں بھی خاص کر اشرف المخلوقات حضرت انسان کیلئے پوری زندگی سلیقہ مندی کے ساتھ گذارنے کیلئے تمام جہت سے راہ نمائی کی جس پر گامزن رہتے ہوئے فوزوفلاح کے مقام محمود کو پالینے میں کوئی تردد نہیں ہوسکتاہے۔ہم ہی نہ چاہیں تو نقصان کس کا ہوگا۔کس طرح صبح وشام کریں اور کیسے شب وروز میں ہم سرخروئی کیلئے عمل کریں اس کے مکمل اور منظم انداز میں راہیں متعین کردیا ہے۔جس نے اس کو ملحوظ رکھا اور اللہ جل جلال کی بتائی ہوئی راہ پر چلتے ہوئے اپنی ودیعت کردہ زندگی کو چلاتے ہوئے تکمیل کی یقینا اس کی کامیابی ہے اور اس کی اس کامیابی پر کوئی بھی قدغن نہیں لکاسکتا۔ہمیں نہ چاہیں تو الزام کس پرہوگا ۔بے راہ روی کے شکار ہوکر اگر رب کی دی گئی امانت والی حیات کو صرف کردیا تو دنیاوی حالات جو ہمارے درمیان رونما ہوگا اس کا خمیازہ بھگتنا ہمیں کو پڑے گا اورلامحدود اخروی حالات کا سامنا کرنا تو ہمارا مقدر ہے ہی۔قیمتی لابدل حیات مستعار کو کس طرح گزارنا ہے اس کی خدوخال کو سمجھنے کیلئے دن،رات،ہفتہ،مہینہ اور سال کا تعین کیا گیا تاکہ صحیح طورپر ہر عمل کیلئے متعین کیا جاسکے اور اس کی اہمیت وافادیت کو بتانے کیلئے نبی آخر الزماں ﷺ کا بعثت ہو اور اس کے ذریعہ اشرف الامت کو بتایاگیا کہ سال کے بارہ ماہ اور دن ورات کو کس طرح کامیاب بنائیں ۔
اللہ تعالیٰ نے بعض دنوں اور بعض مہینوں کو دوسرے ایام پر فوقیت اور فضیلت بخشی ہے۔اللہ کے نزدیک سب سے افضل قربانی کا دن ہے۔بیشتر حدیث کی کتابوں میں مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’افضل الایام عند اللہ یوم النحر، ثم یوم القر‘ ترجمہ’’اللہ کے نزدیک سب سے افضل قربانی کا دن ہے۔اس کے بعد قربانی کا دوسرا دن‘‘۔بعض روایتوں میں آتا ہے کہ سب سے افضل عرفہ کا دن یعنی9ذی الحجہ ہے کیونکہ یہ حج کا سب سے اہم ترین اور بڑی عظمت والا دن ہے اور اس دن کا روزہ دوسالوں کیلئے کفارہ بنتا ہے۔اسی دن کے بارے میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جہنم سے اس دن سے زیادہ کسی اور دن خلاصی وآزاد نہیں دیتے۔
اسی طرح ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام بھی سال کے دیگر ایام سے افضل ہیں۔صحیحین میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا ’ما من ایام العمل الصالح فیھا احب الی اللہ من ہذہ الایام العشر، قالوا، ولا الجہاد فی سبیل اللہ؟قال ولا الجہاد فی سبیل اللہ؟ قال: ولاالجہاد فی سبیل اللہ،الا رجل خرج بنفسہ ومالہ ثم لم یرجع من ذالک بشیٔ‘ ترجمہ’’ کوئی ایسا دن جس میں نیک عمل اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہو،ان دس دنوں سے افضل نہیں ہے۔صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا‘اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا بھی نہیں؟تو آپ ﷺ نے فرمایا’اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا بھی نہیں‘سوائے ایسے شخص کے جو اپنی مال وجان سب کچھ لے کر نکلا،پھر کچھ بھی ساتھ لیکر نہیں لوٹا اور راہ خدا میں شہید ہوگیا‘‘ان ہی دس دنون کی راتوں کی قسم کھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا’الفجر ولیال عشر‘’’قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی‘‘اسی لئے ان ایام میں کثرت سے اللہ کی بڑائی بیان کرنا مستحب اور افضل ترین عبادت ہے۔اللہ کے نبی ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا ’فاکثروا فیھن من التکبیر والتہلیل والتحمید‘ ترجمہ’’اس لئے ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ اللہ کی بڑائی اور حمد وثناء بیان کرو اور لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ورد رکھو‘‘۔محرم کے مہینہ کو اللہ تعالیٰ نے فضیلت وبرکت والا مہینہ قرار دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے اسے حرمت والا اور احترام وتوقیر کے قابل بنایا ہے۔فرائض کے علاوہ نفلی روزوں میں اس ماہ کے روزے کو سال کے دیگر ایام کے روزوں سے افضل قراردیا ہے۔
اس حرمت والے مہینے کی عظمت کو بتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’ان عدۃ الشہور عبد اللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ‘ ترجمہ’’مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے،اسی دن سے جب سے آسمانوں اور زمین کو اس نے پیدا کیا ہے۔ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔(التوبہ:36)اللہ کے نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ زمانہ گھوم کر پھر اسی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی۔سال بارہ مہینوں کا ہے۔ جن میں چار حرمت والے ہیں۔تین پے درپے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب المرجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔(بخاری ومسلم) اس آیت قرآنی اور حدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں ساری امت کا اتفاق ہے کہ یہ چار مہینے حرمت والے مہینے ہیں۔
محرم کا روزہ
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ بنی کریم ﷺ نے فرمایا: ’افضل الصیام بعد رمضان شہر اللہ المحرم‘ ترجمہ:’’رمضان کے بعد سب سے افضل ترین روزہ اللہ کے نزدیک ماہ محرم کا روزہ ہے‘‘۔(مسلم)حافظ ابوالفضل العراقی ‘ترمذی کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ محرم کے مہینہ کو اللہ کا مہینہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ (جبکہ سارے مہینے اللہ ہی کے ہیں)کہ اسی کے اندر قتال کو اللہ نے حرام قراردیا ہے اور یہ سال کا پہلا مہینہ بھی ہے۔اس لئے اس کی خصوصیت کو اجاگر کرنے کیلئے اس کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے۔امام بغوی نے شرح السنہ میں لکھا ہے کہ سارے مہینے اللہ ہی کے ہیں مگر اس ماہ کی عظمت کو ظاہر کرنے کیلئے اس کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے۔جیسے اونٹنی کی عظمت کو بتانے کیلئے اس کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے اور کہا گیا ‘’’ناقۃ اللہ وسقیاھا‘‘ (الشمس)’’واعلموا انما غنمتم‘‘ کی تفسیر میں سفیان بن عینیہ نے کہا ہے کہ مال غنیمت کی نسبت اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ یہ بہترین نفع اور حاصل کردہ مال کا افضل ترین حصہ ہے۔اسی لئے صدقہ کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی گئی بلکہ فقراء کی طرف کی گئی ہے کہ یہ ان ہی کیلئے ہے۔
صیام ماہ محرم کی فضیلت
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’رمضان کے بعد افضل ترین روزہ اللہ کے مہینے محرم کا ہے‘‘۔ان ہی سے ایک دوسری روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا’’فرض کے بعد کونسی نماز افضل ہے؟اور ماہ رمضان کے بعد کونسا روزہ افضل ہے؟توآپ ﷺ نے جواب دیا ۔فرض نماز کے بعد افضل رین نماز درمیانی شب کی نماز ہے اور ماہ رمضان کے روزہ کے بعد افضل ترین روزہ اللہ کے مہینے محرم کا روزہ ہے۔نعمان بن سعدؓ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ ماہ رمضان کے بعد آپ مجھے کس ماہ کا روزہ رکھنے کی تاکید کریں گے؟تو حضرت علی ؓ نے فرمایا’اگر آپ روزہ رکھنا چاہیں تو محرم کا روزہ رکھیں‘کیونکہ یہ اللہ کا خاص مہینہ ہے۔اسی کے اندر اللہ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اور دوسری قوموں کی توبہ قبول کرتے ہیں۔(ترمذی)ایک دوسری روایت حضرت علیؓ سے ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا:’آپؐ مجھے کسی ایسے مہینہ کے بارے میں بتائیں جس میں رمضان کے بعد روزہ رکھاکروں؟تو آپ ﷺ نے فرمایا’اگر تم روزہ رکھنا چاہو تو رمضان کے بعد محرم کا روزہ رکھو کیونکہ یہ اللہ کا مہینہ ہے۔اسی کے اندر اللہ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اور دوسری اقوام کی توبہ قبول کرتے ہیں‘۔(مسند امام احمد)
ماہ محرم کے اہم واقعات
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مع قوم اللہ نے فرعون سے اسی ماہ میں نجات دی۔نبی کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو دس محرم کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا،تو آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ اس دن تم لوگ کیوں روزہ رکھتے ہو؟تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ نے اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دیا اور فرعون اور اس کی قوم کو ہلاک کیا تھا،ایس لئے ہم اللہ کا شکر بجالانے کیلئے اس دن روزہ رکھتے ہیں ،توآپ ﷺ نے فرمایا ’نحن اولیٰ بموسی منکم‘ موسیٰ کے ہم تم سے زیادہ حقدار ہیں۔پھر آپ ﷺ نے اس دن روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔اسی مہینہ میں سریہ ابوسلمہ کو طلیحۃ الاسدی کی طرف روانہ کیا جس میںاحد میں لگے ان کے زخم ہرے ہوگئے اور اس ے واپسی کے بعد ابوسلمہ کی وفات ہوگئی۔اسی ماہ محمد بن سلمہ کے سریہ کو نجد روانہ کیا گیا جس میں ثمامہ بن آثال گرفتار کرکے لائے گئے تھے۔اسی ماہ آپ ﷺ نے خیبر پر چڑھائی کی تھی پھر واپسی میں اسی ماہ حضرت صفیہ بنت حی بن اخطب سے آپ ﷺ نے شادی کی۔اسی ماہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے والد ابوقحافہ کی وفات ہوئی اور اسی ماہ نبی کریم ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی والدہ ماریہ قبطیہ اس دنیا سے رخصت ہوئیں،اسی ماہ کی دسویں تاریخ کو جمعہ کے دن حضرت حسین بن علی شہید کئے گئے۔
آغاز ہجری سال
ساری امت کا اتفاق ہے کہ سال کا پہلا مہینہ محرم ہے۔پچھلے زمانہ میں بلکہ اسلام کے ابتدائی دور میں بھی لوگ تاریخ نہیں ڈالاکرتے تھے کیونکہ عرب قوم لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی۔تاریخ کا اندازہ واقعات سے لگایا کرتے تے۔جیسے عام الفیل ،وہ کہتے کہ یہ عام الفیل میں ہوا۔پھر حضرت عمر ؓ کے دور میں جب اسلام کا عائرہ مشرق ومغرب اور شمال وجنوب میں پھیل گیا اور خطوط وپیغامات آنے جانے لگے اور یہ اشتباہ ہونے لگاکہ یہ خط پچھلے خط سے پہلے کا ہے یا بعد کا۔تو تاریخ ڈالنے کی ضرورت پیش آئی۔عادت کے مطابق حضرت عمرؓ نے اس کے بارے میں صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کیا کہ تاریخ کا آغاز کب سے کیا جائے؟آیا نبی کریم ﷺ کی ولادت سے،یا بعثت سے،ہجرت سے ؟اگر میلاد سے کیا جائے تو نصرانیوں کے متبع ہوجائیں گے کیونکہ انہوں نے تاریخ کی ابتداء عیسیٰ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش سے کی ہے۔جبکہ مسلمان مستقل قوم ہیں اور ان کا مزاج دوسروں سے مختلف ہے۔پھر بعثت سے شروع کرنے پر غور کیا گیا کہ یہیں سے اس امت کو روشنی ملی ہے جس کا تذکرہ قرآن میں یوں ہے’ وانزلنا الیکم نورامبینا‘ (نساء)مگر بعثت کے بعد ہی اسلامی حکومت قائم نہیں ہوئی جب کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ تاریخ ایسی ہو جس میں اسلامی اقدار کی جھلک آتی ہو اور اس کی شروعات ہجرت سے ہوئی ہے۔اس لئے سبھوں کی رائے اس پر متفق ہوگئی کہ تاریخ کا آغاز ہجرت سے ہو،پھر ہجرت میں یہ اختلاف ہوا کہ کس ماہ سے اس کی ابتداء کی جائے؟بعضوں کی رائے رمضان سے شروع کرنے کی ہوئی کہ یہی ماہ افضل ہے اور اسی میں قرآن کریم نازل ہوا ہے۔بعضوں کی رائے ربیع الاول سے شروع کرنے کی ہوئی کہ اس مہینہ میں آپ ﷺ کی ولادت ہوئی اور اسی میں ہجرت اور اسی میں وفات ہوئی،مگر یہ خطرہ تھا کہ یہ آپﷺ کی ولادت یا وفات کی یادگار نہ بن جائے،اس کے بعدمحرم کے مہینہ پر غور کیا گیا کہ اس کے اندر لوگ اسلام کے رکن خامس حج کی ادائیگی سے واپس ہوتے ہیں اور ذی الحجہ میں ان کے ارکان پورے ہوجاتے ہیں،اس طرح سبھوں کا محرم سے سال کا آغاز کرنے پر اتفاق واجماع ہوگیا۔
صیام یوم عاشورہ
امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کے دن قریش روزہ رکھا کرتے تھے۔رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے اس دن روزہ رکھا اور دوسروں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔پھر جب رمضان المبارک کا روزہ فرض ہوگیا تو آپ ﷺ نے عاشورہ کے دن روزے کو ترک کردیا اور لوگوں کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو روزہ رکھیں یا چاہیں تو روزہ نہ رکھیں۔حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو کسی روزے کا اس قدر اہتمام کرتے نہیں دیکھا جس قدر آپ ﷺ عاشورہ کے روزے کا اہتمام کرتے تھے اور اس ماہ یعنی رمضان کے روزہ کا۔حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نبی اسلم کے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوںمیں اعلان کردیں کہ جس نے کچھ کھاپی لیا ہے وہ دن کا باقی حصہ روزہ دار کی طرح گزارے اور جس نے نہیں کھایا ہے،کیونکہ آج عاشورہ کا دن ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا اللہ نے اگر چاہا تو اگلے سال ہم 9تاریخ کو بھی روزہ رکھیں گے مگر اگلا سال آنے سے قبل آپ ﷺ کی وفات ہوگی۔ابن عباسؓ ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ آئندہ سال اگر ہم زندہ رہے تو9کوبھی روزہ رکھیں گے۔
٭٭٭