[]
امراوتی: وجئے واڑہ میں رہنے والے 44 سالہ سندیش مہادیوپا پوسٹل محکمہ کے سینئر ملازم ہیں نے حال ہی میں اپنے قریبی دوست احباب‘ عزیز و اقارب کو سال نو کی مبارکباد کے 30 سے زائد گریٹنگ کارڈز پوسٹ کئے ہیں۔
مہادیویا جو ہندوستان میں سل فون سے قبل والی زندگی سے بہتر طور پر واقف ہیں نے کہاکہ وہ ہر سال محدود پیمانہ پر گریٹنگ کارڈ خریدنے اور پھر انہیں قریبی دوستوں و احبا ب کو پوسٹ کرنے کے قدیم روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں مگر ڈیجٹیلائزیشن کی لعنت نے اس قدیم روایت کو تقریباً ختم کردیاہے۔
اگزیکٹیو ڈائرکٹر آرچیز انڈیا ورون مولچندانی جو ملک میں گریٹنگ کارڈ ز کی ایک سرکردہ کمپنی ہے نے کہاکہ وقت بدلتا رہتاہے۔ انہوں نے گریٹنگ کارڈز روانہ کرنا اور اسے وصول کرنے کی روایت تقریباً معدومیت کے لیے سل فونس کو مورد الزام ٹھہرایا۔
فی زمانہ آرچیز کمپنی کی آمدنی میں گریٹنگ کارڈز کا حصہ صرف 10 فیصد ہے لیکن آج سے 25 سال قبل وہ خود‘ کمپنی کی آمدنی میں 40 فیصد آمدنی فراہم کرتے تھے۔
مولچندانی نے پی ٹی آئی سے بات چیت کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ انہوں نے کہاکہ اسٹور کے مستقبل کو تاریک محسوس کرتے ہوئے ملک کی نامور کمپنی آئی ٹی سی نے اکسپریشنز گریٹنگ کارڈز بزنس کو کئی سال قبل ہی بند کردیاتھا جبکہ اس کمپنی کے پاس پیپرس بورڈس‘پیپر اور پیاکیجنگ بزنس ہونے کے باوجود اس نے گریٹنگ کارڈ کا بزنس ختم کردیا۔
ڈیجٹل کی لعنت سے گریٹنگ کارڈز کا بزنس شدید بحران کی نذر ہوگیا جس کے سبب آرچیز کمپنی نے ملازمین کی تعداد میں تخفیف شروع کردی ہے۔ ڈیزائن اسٹوڈیو ملازمین کی تعداد2000 میں 85 تھی جو 2023 میں گھٹ کر ان کی تعداد30 ہوگئی۔
مالکی پورم کے رہنے والے 37 سالہ ٹی پروین جو شارٹ فلم کے ڈائرکٹر ہیں‘ نے کہاکہ انہیں یہ یاد نہیں ہے کہ آیاوہ کبھی گریٹنگ کارڈ خریدے بھی یا ان کارڈز کو پوسٹ کرچکے ہیں۔ ہاں! البتہ کرسمس‘سال نو کے بشمول سنکرانتی کے مبارکباد ی کے کارڈز واٹس ایپ پر انہیں وصول بھی ہوئے ہیں اور انہیں فارورڈ بھی کرچکے ہیں۔
پروین نے کہاکہ اسمارٹ فونس سے قبل ایس ایم ایس کے ذریعہ مبارکباد دی کے پیامات وصول کئے جاتے تھے۔ وجئے واڑہ میں ایک مشہور گفٹ شاپ چلانے والے 30 سالہ ایم کلیان کمار نے کہاکہ 5 سال قبل سے ہی وہ گریٹنگ گارڈز اپنے اسٹور میں نہیں رکھ رہے ہیں کیونکہ ان کارڈز کا کوئی خریدار ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے مختلف پلاٹ فامس واٹس ایپ‘فیس بک‘انسٹاگرام وغیرہ پر بلامعاوضہ ڈیجیٹل گریٹنگ کا سلسلہ شروع ہواہے۔ سال 2024 میں ان کی دکانوں سے ایک بھی گریٹنگ کارڈ فروخت نہیں ہوا۔ انہوں نے کہاکہ نہ صرف وجئے واڑہ بلکہ ضلع مغربی گوداوری میں بھیماورم میں تاجرین‘ بڑے پیمانہ پر عارضی اسٹالس لگاتے ہوئے نہ صرف دسمبر (کرسمس) بلکہ سال نو کے بھی گریٹنگ کارڈ بڑے پیمانہ پر فروخت کیا کرتے تھے۔
ایک اسٹیشنری شاپ کیپر 53 سالہ پی پورنا چندرا نے جس کی بھیماورم میں غیر فعال وینکٹ رمنا تھیٹر کے قریب دکان تھی‘ یاد کرتے ہوئے کہاکہ کرسمس کے وقت گریٹنگ کارڈز کی بہت زیادہ مانگ رہتی تھی۔بطور خاص کیرالا کے مائیگرنٹ ورکرس‘ بڑی تعداد میں یہ گریٹنگ کارڈز خریدتے تھے۔
ان دنوں میں ہر سال‘ ہم خصوصیت کے ساتھ گریٹنگ کارڈ ز فروخت کیاکرتے تھے۔ اگر کوئی بیرونی ملک روانہ ہوتاتو اسے روانہ کرنے کے لیے گریٹنگ کارڈز‘ شکریہ کے گریٹنگ کارڈ اور معذرت خواہی کے کارڈ ہمارے پاس دستیاب رہتے تھے مگر اب ایسا کچھ نہیں ہے۔
اس زمانے میں گریٹنگ کارڈز روانہ کرنے والے ہجوم سے نمٹنے کے لیے 150سالہ قدیم محکمہ ڈاک و تار‘گریٹنگ کارڈز کے خصوصی پوسٹ باکسس نصب کرتاتھا۔ 1990 کی دہائی میں بھیماورم کے ہیڈ پوسٹ آفس‘ الگ تھلگ پوسٹ باکس وقف کر رکھے تھے جن پر گریٹنگ ٹو ممبئی‘گریٹنگ ٹو کولکتہ اور گریٹنگ ٹو دہلی تحریر کی سلپ لگی رہتی تھیں۔
ہم خود پریسڈنسی ٹاون میں خصوصی طور پر نصب گریٹنگ کارڈز پوسٹ باکس کو استعمال کرچکے تھے۔ ہجوم سے نمٹنے کے لیے یہ باکس نصب کیاگیاتھا۔ ہمارے پاس 5پریسڈنسی ٹاونس کولکتہ‘بنگلور‘ چینائی‘ ممبئی اور دہلی تھے۔
آندھراپردیش پوسٹل سرکل کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر جی شیوانا گراجو نے یہ بات بتائی۔ کمار نے مشاہدہ کی بات کرتے ہوئے مزید کہاکہ ڈیجیٹلائزیشن نے ڈائریو ں کی فروخت کو ختم کردیا۔ اب سل فونس میں ڈیجیٹل ڈائریاں آنے لگی ہیں۔ مولچندانی نے مزید کہاکہ واٹس ایپ پر وصول ہونے والے گریٹنگ چند لمحوں میں حذف ہوجاتی ہے مگر حقیقی گریٹنگ کارڈ زندگی بھر یاد رہتاہے۔