[]
لکھنؤ: آج ایک آواز خاموش ہو گئی۔ اپنی والدہ پر کئی اشعار لکھنے والے معروف شاعر منور رانا آج رات دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ وہ کئی دنوں سے بیمار تھے۔
وہ لکھنؤ کے سنجے گاندھی پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسس میں زیرعلاج تھے۔ انہیں 9 جنوری کو طبیعت خراب ہونے پر آئی سی یو میں منتقل کردیا گیا تھا۔
منور رانا نے 71 سال کی عمر میں آخری سانس لی۔ منور رانا گردے اور دل سے متعلق کئی مسائل کے علاوہ گلے کے کینسر کا شکار تھے۔
گزشتہ سال بھی منور رانا کو طبیعت کی خرابی کے باعث لکھنؤ کے اپولو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ ان کی حالت اتنی بگڑ گئی تھی کہ انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا۔
منور رانا کی دختر اور ایس پی لیڈر سمیہ رانا نے بتایا کہ ان کے والد کی طبیعت پچھلے دو تین دنوں سے خراب تھی۔
اس مرتبہ انہیں تقریباً 15 دن قبل طبعیت بگڑنے پر پہلے میدانتا ہاسپٹل لے جایا گیا اس کے بعد انہیں سنجے گاندھی انسٹی ٹیوٹ میں داخل کیا گیا۔
ان کے فرزند تبریز رانا نے تصدیق کی کہ 14 جنوری کی شب رات گیارہ بجے ان کے والد نے آخری سانس لی۔ نماز جنازہ اور تدفین پیر کو ہوگی۔
منور رانا کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چار دختران اور ایک فرزند شامل ہیں۔
منور رانا نے اپنی شاعری کے ذریعہ پوری دنیا می مقبولیت کے جھنڈے گاڑے اور کم و بیش ہر مشاعرے میں انہوں نے اپنی چھاپ چھوڑی۔ اردو دُنیا میں زیادہ تر مشاعروں کی صدارت انہیں کو سونپی جاتی تھی۔
ایک کامیاب شاعر کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ ان کی شاعری کا آخری مجموعہ ‘مہاجر نامہ’ ہے۔
وہ ایک نڈر اور بہادر انسان تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے ایشوز پر ساہتیہ اکاڈمی کا قومی ایوارڈ بھی سرکار کو لوٹا دیا تھا۔ انہیں یوپی اردو اکادمی کا چیئر مین بھی بنایا گیا لیکن کچھ ہی دن بعد اس پوسٹ سے استعفے دے دیا۔ ان کی شاعری میں ماں کا ایک مقدس مقام ہے جس کی انہیں بہت داد بہت ملی۔