[]
ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی
مودی نے ہر بار اپنے سیاسی مفادات کو حاصل کرنے کے لئے ہندوتوا کا استعمال کیا ہے۔ اب تو حد ہوگئی کہ وہ لوک سبھا کے چناؤ کے چکر میں ادھورے مندر کا 22جنوری کو افتتاح کرنے جارہے ہیں۔ یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ ہندوؤں کے چار ستون یعنی چار شنکر اچاریہ کہہ رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے یوٹیوبر دیپک شرما کے مطابق مندر اب تک صرف 40 فیصد ہی مکمل ہوا ہے اور 60 فیصدی کام باقی ہے۔ چار وں شنکر اچاریوں نے افتتاحی تقریب کے خاکے پر کئی سوال اٹھاتے ہوئے خود کو افتتاحی تقریب سے علحدہ رکھنا مناسب سمجھا ہے۔ پوری پیٹھ کے شنکر اچاریہ سوامی نسچلا نندسرسوتی کے بعد دوارکا پیٹ کے شنکر اچاریہ مکتھیشور آنند نے بھی تقریب کی مخالفت کردی ہے۔ ان کے علاوہ دو شنکر اچاریوں نے بھی واضح طورپر یہ کہہ دیا ہے کہ وہ بھی اس میں شریک نہیں ہوں گے۔ پران پرتشٹھا کی سخت مخالفت کرتے ہوئے پوری پیٹھ کے شنکر اچاریہ نے کہا کہ ہم اس تقریب میں تالی بجانے تھوڑی نہ جائیں گے؟ ان سوامیوں کی ویڈیو سوشیل میڈیا پر وائر ل ہورہی ہے۔ سوامی نسچلا نند سرسوتی نے کہا کہ انہیں رام للا کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ ملا ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک شخص کے ساتھ تقریب میں آسکتے ہیں۔ غصے کے ساتھ سوامی نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر انہیں 100 عقیدت مندوں کے ساتھ بھی آنے کی دعوت دی جاتی تو وہ تب بھی اس تقریب کا بائیکاٹ کرتے۔ شاردا پیٹھ کے شنکر اچاریہ سدانند سرسوتی نے بھی اس تقریب کے طریقہ کار پر انگلیاں اٹھائی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام رام مندر کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ووٹوں سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوش کے نامناسب مہینہ میں مندر کے افتتاح کا سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ رام مندر کا جلد بازی میں افتتاح دراصل لوک سبھا چناؤ میں بی جے پی کے ووٹروں کو راغب کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی ویدوں کے اصولوں کے خلاف رام مندر کا افتتاح کرنے جارہے ہیں۔ سیاسی ماہرین کے بموجب مودی مندر کے افتتاح کو لے کر بہت بڑا Risk لے رہے ہیں۔ ویدوں کے خلاف جانا شاید ان کے حق میں نہیں ہوگا۔ ہندو مہا سبھا اترپردیش یونٹ نے بھی سوشیل میڈیا پر ایک ویڈیو ڈالا ہے جسے سرینگری مٹھ کے شنکر اچاریہ جگت گرو سوامی بھارتی تیرتھ سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ ویڈیو دعوی کرتا ہے کہ شنکر اچاریہ رام للا کی تقریب میں شرکت نہیں کریں گے۔ اس ویڈیو میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ یہ ہندو برادری کو بیوقوف بنانے اور لوک سبھا انتخابات سے قبل اپنے آپ کو ہندوتوا کے چمپئن ظاہر کرنے کے لئے بی جے پی کا sponsored پروگرام ہے۔ بی جے پی کے کٹر حامی بلکہ پارٹی کے پوسٹر بوائے سوامی باگیشور نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ جو شنکر اچاریہ کہتے ہیں وہی صحیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ اچاریہ دھرم کے پردھان منتری ہیں۔ بی جے پی کے ممتاز قائد سابق راجیہ سبھا ایم پی سبرامنیم سوامی نے کہا کہ رام مندر کی تعمیر کے لئے سپریم کورٹ اور خاص طورپر سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کا شکریہ ادا کرنا چاہئے جن کے فیصلے کے باعث رام مندر کی تعمیر ممکن ہوسکی۔ اس دوران سمرتی ایرانی نے سونیا گاندھی کی جانب سے تقریب میں شرکت نہ کرنے کو موضوع بحث بنایا ہے لیکن ہندوستان کے شہری اول راشٹر پتی مرمو کو دعوت نامہ کیوں نہیں دیا گیا اس کی وضاحت ان کی جانب سے نہیں کی گئی۔ کانگریس نے واضح طورپر یہ کہہ دیا ہے کہ بی جے پی نے اس تقریب کو اپنی پارٹی کا ایونٹ بنا کر چھوڑ دیا ہے تو ایسے میں مخالف جماعت کی ایک سربراہ وہاں کیسے جاسکتی ہے؟ کانگریس پارٹی نے یہ بھی کہا کہ کیسے ایک ادھوری چیز کا افتتاح کیا جاسکتا ہے؟ پارٹی کا یہ تاثر تھا کہ بی جے پی نے ہندو توا کے کئی نکات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ یہاں پر بھی وہ یہی کچھ کررہی ہے۔ گودی میڈیا نے سونیا گاندھی کے تقریب میں شرکت نہ کرنے کے فیصلہ کو زبردست ہوا دی ہے لیکن ان چینلوں میں سے ایک بھی چینل نے یہ سوال نہیں کیا کہ آخر چاروں شنکر اچاریہ اس تقریب میں شرکت کیوں نہیں کررہے ہیں؟ ان کا تقریب میں نہ آنا ایک زبردست واقعہ ہے؟ کیا مودی کے آگے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے ؟یا پھر نریندر مودی خود سوپر شنکر اچاریہ بن گئے ہیں! سونیا گاندھی کی تقریب میں عدم شرکت اہم نہیں ہے بلکہ گودی میڈیا یہ پروپگنڈہ کرنا چاہتا ہے کہ وہ ہندو کلچر کی مخالف ہیں۔ جن کی ساس شریمتی اندرا گاندھی اور جن کے شوہر راجیو گاندھی ہندوستان کی عظمت کو برقرار رکھنے کے لئے جان دے دیتے ہیں تو ویسی شخصیت کو مخالف ہندو قرار دینا کتنا بڑا بھونڈا مذاق ہوگا۔ شنکر اچاریوں کی عدم شرکت گودی میڈیا میں موضوع نہیں بن رہی ہے لیکن سوشیل میڈیا نے اس کو بہت بڑا مسئلہ بنا کر ہر گھر میں پہنچادیا ہے۔ شنکر اچاریوں نے کہا ہے کہ مندر کا افتتاح کرنے کا صحیح موقع رام نومی ہونا چاہئے تھا لیکن مودی رام نومی کا انتظار نہیں کریں گے کیونکہ ان کے پاس لارڈ رام اہمیت نہیں رکھتے بلکہ لوک سبھا کا چناؤ اہمیت کا حامل ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہر ایک لیڈر کو یہ ذمہ داری دی ہے کہ وہ بھکتوں کی ایک مقصود تعداد کو ایودھیا میں جمع کریں۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ 22؍جنوری کو ملک بھر سے کم از کم چار کروڑ لوگ ایودھیا میں اکھٹا ہوں۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہندوازم کے ماننے والے لوگ رام مندر کے افتتاح سے یقینا بے حد خوش ہیں لیکن وہ نہیں چاہتے کہ مذہبی معاملوں کو سیاسی اغراض کے لئے استعمال کیا جائے۔ یہی احساس ملک کے ہندو بھائیوں کی اکثریت میں بھی اجاگر ہورہا ہے۔ کچھ لوگ تو یہ بھی سوال کررہے ہیں کہ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کو رام للا سے واقعی پیار ہے تو وہ اس بات کا جائزہ کیوں نہیں لے رہی ہے کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جس کے سبب بزرگ ماں باپ old age homes کو بھیجے جارہے ہیں۔ حالانکہ لارڈ راما کی سب سے اہم تعلیم یہ ہے کہ ماں باپ کی خواہش پر جان نچھاور کردو۔ یعنی ان کا یہ کہنا بالکل بجا ہے وہ چاہتے ہیں کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ آخر نوجوان نسل رام کی تعلیمات سے کیوں دور ہوگئی ہے اور وہ کیوں اپنے ماں باپ پر اتنا ظلم کررہی ہے۔ آخر وہ کیوں اپنے والدین کو اپنے ساتھ رکھنا نہیں چاہتے؟ رام مندر بنالینا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن لارڈ رام کی تعلیمات کو زندگی کا حصہ بنانا بہت بڑی بات ہے۔ چار شنکر اچاریوں کا اس تقریب سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کرلینا ہندو سماج کے لئے ایک لمحہ فکر ہونا چاہئے۔ ان چاروں بزرگوں کا یہ احساس ہے کہ مودی جی مذہبی معاملے میں ان سے بھی اونچے ہوگئے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ
میں آپ اپنی تلاش میں ہوں میرا کوئی رہنما نہیں ہے
وہ کیا بتائیں گے راہ مجھ کوجنہیں خود اپنا پتہ نہیں ہے