جن پر شہادت کو ہے ناز وہ ہیں حضرت امام حسینؓ

[]

مولانا حافظ محمد آصف عرفان قادری
(ایڈیٹر ماہنامہ عرفان انوار)

’’قربانی‘‘ کی اسلام میں بڑی اہمیت ہے، یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ دین کا دوسرا نام قربانی ہے۔ دین کی خاطر جان دینا، مال خرچ کرنا، اہل وعیال سے دوری اختیار کرنا، کاروبار اور شہر و وطن کو چھوڑ کر ہجرت کر جانا یہ سب قربانی کی مختلف صورتیں ہیں۔

حضرت رابعہ بصریہؒ نے حضرت سیدنا سفیان ثوریؒ سے پوچھا: سخاوت کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: دنیا والوں کے نزدیک سخاوت یہ ہے کہ بندہ اپنا مال خرچ کردے اور آخرت والوں کے نزدیک یہ ہے کہ بندہ اپنی جان بھی قربان کردے۔ ( شعب الایمان، ج ۱، ص۳۷۳، رقم: ۴۳۳) جب ہم اس امّت کے اوّلین لوگوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ہر طرح کی قربانی دینے والی بے شمار ہستیاں نظر آتی ہیں، کسی نے اسلام کی خاطر بے انتہا مال خرچ کیا، کسی نے اہل وعیال کی قربانی پیش کی اور کسی نے دین کی آبیاری و سربلندی کے لئے اپنی جان تک قربان کردی، پھر جب ہم واقعۂ کربلا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں قربانی کی تمام اقسام یکجا نظر آتی ہیں۔

تخلیق کائنات سے لے کر آج تک کی تاریخ کو اگر بغور جائزہ لیا جائے تو بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں، لیکن جس طرح سر زمین کربلا میں امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نہ صرف تنہا آپ کی شہادت تھی بلکہ اپنے اہل و عیال اور اپنے جان نثاروں کے ساتھ ہوئی ہے اس طرح کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ آپؓ کی ولادت سے لے کر شہادت تک کے واقعات کو پڑھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کے بچپن کے حالات کو احادیث کی روشنی میں دیکھیں حضرت ابی رافعؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ہوئی تو رسول کریم ﷺ نے خود ان دونوں کے کانوں میں اذان دی۔ (مجمع الزوائد) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے خود امام حسن اور امام حسین کی طرف سے عقیقے میں دنبے ذبح کئے۔ (سنن ابو داؤد) حضرت مفضلؓ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حسن اور حسین کے ناموں کو حجاب میں رکھا یہاں تک رسول کریم ﷺ نے اپنے بیٹوں کا نام حسن اور حسین رکھا، اس سے پہلے دنیا میں کسی کا نام حسن وحسین نہیں تھا۔ (ابن کثیر) حضرت یحییٰ بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے پاس سے رسول کریم ﷺ گذرے تو امام حسین رو رہے تھے، تو رسول کریم ﷺ نے کہا کہ بیٹی فاطمہؓ انہیں مت رونے دینا ان کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔

(ابن ابی کثیر) حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نماز ادا فرما رہے تھے تو حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما آپ ﷺ کی پشت پر سوار ہوگئے تو لوگوں نے ان کو منع کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ان کو چھوڑدو، ان پر میرے ماں باپ قربان ہیں۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی، حسین میری نسلوں میں سے ایک ہے۔ (سنن الترمذی، حدیث: ۳۷۷۵، مسند احمد، حدیث: ۴/۱۷۲، سنن ابن ماجہ) سیدنا حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے جبرائیلؑ نے خبر دی ہے کہ اہل جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔(سنن الترمذی، حدیث: ۳۷۸۱، صحیح ابن حبان، ۲۲۲۹، ابن خزیمہ، ۱۱۹۴، المستدرک للحاکم، ۳/۳۸۱) سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت علی و فاطمہ و حسن و حسین رضی اللہ عنہم کی طرف دیکھا اور فرمایا جس نے تم سے جنگ کی اس نے مجھ سے جنگ کی۔ شہادت سے قبل شہات کی خبریں: مذکورہ روایت کی طرح اور بھی بہت سی روایات موجود ہیں جن سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کس طرح رسول کریم ﷺ امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے محبت کرتے تھے، کس طرح امام حسین کو اپنے کندھوں پر سوار کرتے تھے، کس طرح امام حسین کا رونا آپ ﷺ کو تکلیف دیتا تھا۔ کس طرح امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کے لیے جنت سے کپڑے آتے تھے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہید کربلا امام حسینؓ رسول کریم ﷺ کے محبوب نواسے تھے اور آپ ﷺ اس معرکہ عظیم کے دن کے لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خود تربیت بھی فرماتے تھے۔ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں صراحۃ فرماتے تھے کہ میرے اس بیٹے کو میری امت کے اوباش حاکم شہید کریں گے۔ اور کبھی فرماتے تھے کہ ”یا ام سلمۃ اذا تحولت ہٰذہ التربۃ دما فاعلمی ان ابنی قد قتل“۔ (المعجم الکبیر) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی ﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: مجھے جبرئیل امین نے (عالم بیداری میں) بتایا کہ میرا یہ بیٹا حسین عراق کی سر زمین میں قتل کر دیا جائے گا میں نے کہا جبرئیل مجھے اس زمین کی مٹی لا کر دکھا دو جہاں حسینؓ کو قتل کر دیا جائے گا پس جبرئیل گئے اور مٹی لا کر دکھا دی کہ یہ اس کے مقتل کی مٹی ہے۔ (البدايه والنهايه، ۸: ۱۹۶،۲۰۰، کنز العمال، ۱۲۔۱۲۶، حدیث: ۳۴۳۱۳، المعجم الکبیر للطبرانی، ۳/۱۰۷۔ حدیث: ۲۸۱۴)

اور فرمایا: اے ام سلمہؓ جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہوجائے تو یقین کرلینا کہ میرا لخت جگر شہید کردیا گیا۔ رسول کریم ﷺ نے تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی وفات کی جگہ بھی بیان فرمادی تھی کہ ”انہ تقتل بکربلا“ یہ میرا نواسہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کربلاء کی زمین میں شہید کیا جائے گا۔ ایسے دور میں جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ رونما ہونے والا تھا تو اس دور کے لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ”تعوذوا باللہ من سنۃ سنین و امارۃ الصبیان“ یعنی ساٹھ ہجری کے سال اور لڑکوں کی حکومت سے پناہ مانگو۔ (البدایہ والنہایہ، ج: ۸) اس مذکورہ حدیث کو سامنے رکھ کر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ دعا کرتے تھے کہ ”اللّٰہم انی اعوذ بک من رأس الستین وامارۃ الصبیان“ اے اللہ میں ساٹھ ہجری اور اس لڑکوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ رسول کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ”ان ہلاک امتی او فساد امتی رؤس امراء اغیلمۃ سمہاء من قریش“ بے شک میری امت کی ہلاکت یا فساد قریشوں کے بیوقوف اور اوباش حکمرانوں کے ہاتھوں ہوگا۔ (الصوعق الحرقہ: ۲۲۱، مسند احمد بن حنبل) مذکورہ صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح امام حسین رضی اللہ عنہ سے رسول کریم ﷺ نے محبت اور پیار کیا تھا اس کی مثال ملنا محال ہے۔

لیکن اس کے ساتھ اپنے محبوب نواسے کو یہ سب کچھ سمجھا دیا کہ تیری شہادت کب، کہاں اور کیوں ہوگی۔ اب ہم اگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے آپ نے کس طرح اپنے نانا جان کی شریعت و سنت کو اپنی جان سے زیادہ عزیز تر سمجھا تھا کہ کبھی پوری رات نماز میں ہوتے تھے، کبھی تلاوت میں، کبھی مخلوق کی خدمت میں، کبھی سخاوت میں، ہر وقت اوامر و نواہی پر عمل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب رسول کریم ﷺ کی ظاہری زندگی سے آپ کو محبوب حقیقی کی طرف سے وصال کا پیغام آیا اور آپ ﷺ دنیا سے پردہ پوش ہوگئے تو اس وقت عالم اسلام کے لیے قیامت کا منظر تھا۔ لیکن اس کے بعد گلشن توحید کی آبیاری کے لیے خلفائے راشدین، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اس گلشن کو اپنے محبوب ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے تبلیغ و تحفظ دین کا فریضہ انجام دیتے رہے۔

حتیٰ کہ وہ ساٹھ ہجری کا وقت آگیا جس کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا ”یہ میری امت کو قریش کے اوباش حکمران تباہ کریں گے۔“ اب ایک ظالم و جابر حکمران سامنے آتا ہے اور شریعت کی حدود کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے۔ شراب پینا شروع کردیا، زنا عام ہوگیا، قتل و غارت گری عام ہوگئی، ظلم بڑھنے لگا۔ اب یہ وہ وقت تھا جب شہید کربلا امام حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے نانا مکرم کا فرمان ہر طرف نظر آنے لگا کہ ’’میری امت کو اوباش حکمران ہلاک کریں گے“حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ جب عربستان کی سر زمین پر معصوم بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، بت پرستی عام تھی، ویاج خوری عام تھی، زنا کو زندگی کا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے، جہالت و ظلم کی انتہا تھی۔

ایسے پرفتن دور میں آپ ﷺ نے کس طرح اعلاء کلمتہ الحق کیا تھا، رسول کریم ﷺ کے اعلان کے بعد کس طرح ابولہب نے نا شائستہ کلمات کہے تھے جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے سورہ لہب نازل فرمائی تھی۔ رسول کریم ﷺ کو طائف کے میدان میں کس طرح لہولہاں کردیا گیا تھا۔ رسول کریم ﷺ کی پہلی غلام عورت حضرت بی بی سمیہ رضی اللہ عنہا کو کس طرح ظالموں نے سرعام شہید کردیا تھا۔ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو کس طرح درخت کے ساتھ باندھ کر اور تیروں سے آپ کے جسم کو خون میں نہلایا گیا تھا۔ حبیب کبریا ﷺ کو کس طرح اپنے صحابہ کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور کیا گیا تھا۔ اور ان تین سالوں میں کتنے معصوم بچے اسلام کی آبیاری کے لیے بھوکے پیاسے شہید ہوگئے تھے، کتنی معصوم بچیاں پانی کے ایک گھونٹ کے لیے چلاتی چلاتی تڑپتی ہوئی حالت میں دم توڑ چلی تھیں۔ رسول کریم ﷺ کس طرح جنگ احد میں اپنے رب کریم کی توحید کی بلندی کے لیے اپنے دانت مبارک شہید کروادیے تھے۔

یہ وہ منظر تھا جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کے سامنے ہر وقت طواف کررہا تھا، اب جب ایک ظالم نے اس گلشن اسلام کی ویرانی کے لیے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، گمرہی و جہالت کی تاریک وادیوں میں لوگوں کو ڈھکیلا جارہا تھا، تو ایسے وقت حضرت امام حسین کی روح تڑپ اٹھی، آنکھوں کے سامنے محبوب نانا کا فرمان مبارک تھا کہ عنقریب قریش کے اوباش حکمران میری امت کو ہلاک کردیں گے۔ اس دین محمد ﷺ کو بچانے کے لیے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنا تن من دھن، اپنا وطن، اولاد، مال، دولت ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ اور پھر وہ وقت بھی آگیا کہ جب تاریخ عالم نے دیکھا کہ ایک طرف ہزاروں لوگ جو بظاہر مسلمان تھے اپنے محبوب نبی ﷺ کے محبوب نواسے کو بھوکا اور پیاسا دیکھتے خوشی محسوس کررہے تھے۔ لیکن امام حسین رضی اللہ عنہ کو اور ان کے جان نثاروں کو پانی کا ایک گھونٹ پلانا ان کی نظر میں بڑا جرم تھا۔ درحقیقت یہ مقام رضا تھا جہاں بڑے بڑے اولیاء اللہ، مجاہد بھی ڈگمگاتے ہیں۔

یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا فیصلہ ہے کہ انسان کو بھوک، خوف، مال، ثمرات وغیرہ کی کمی سے آزمایا جاتا ہے کہ دیکھا جائے کہ انسان اپنے مالک حقیقی کی رضا پر راضی رہتا ہے یا نہیں۔ لیکن تاریخ عالم نے دیکھا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس مقام پر بھی رضا کا دامن نہیں چھوڑا اور جابر و ظالم کے سامنے اپنی گردن نہ جھکائی۔ اب وہ آخری مرحلہ مقام رضا بھی آپہنچا جب حضرت امام عالی مقام کے سامنے آپ کے جان نثاروں کو ایک ایک کرکے شہید کیا گیا، اور آخر وہ گھڑی بھی آگئی جب معصوم چھ ماہ کا شہزادہ لخت جگر علی اصغرؓ کی شہادت بھی واقع ہوگئی۔ لیکن اس صبر کے پہاڑ نے اپنے نانا محمد ﷺ کے دین کو مضبوطی کے ساتھ سنبھال کر رکھا۔ اور پھر یہ مرد مجاہد مرد غازی جس نے 72 نفوس قدسیہ کے ساتھ بالآخر خود بھی شہادت کا جام پی لیا۔ اور اپنے نانا کے دین کے ساتھ ایسا رشتہ جوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملا جس کی مثال تاریخ عالم میں ملنا محال ہے۔ حضرت امام عالی مقام کی شہادت کا پہلا پیغام عملی جدوجہد کا پیغام ہے۔

محبت حسین رضی اللہ عنہ کو فقط رسمی نہ رہنے دیا جائے بلکہ اسے اپنے عمل، حال و قال میں شامل کرلیا جائے اور اپنی زندگی کا مقصد بنایا جائے، یعنی معلوم کیا جائے کہ یزیدی کردار کیا ہے اور حسینی کردار کیا ہے۔ یزید نے کھلم کھلا اسلام کا انکار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بتوں کی پوجا کی تھی، مساجد بھی مسمار نہیں کی تھیں۔ وہ اسلام کا نام بھی لیتا تھا، وہ یہ بھی کہتا تھا کہ میں نماز بھی پڑھتا ہوں، میں مسلمان بھی ہوں، میں موحد بھی ہوں، میں حکمران بھی ہوں، میں آپ کا خیر خواہ بھی ہوں۔ اسلام کا انکار یہ تو ابوجہلی ہے، ابولہبی ہے۔

یزیدی کردار یہ ہے کہ مسلمان بھی ہو اور اسلام سے دھوکہ بھی کیا جائے، امانت کا دعویٰ بھی ہو اور خیانت بھی کی جائے، نام اسلام کا لیا جائے اور آمریت بھی مسلط کی جائے۔ اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو کچلا جائے۔ اسلام کے نام سے دھوکہ و فریب یزیدیت کا نام ہے۔ بیت المال میں خیانت کرنا، دولت کو اپنی عیش پرستی پر خرچ کرنا یزیدیت کا نام ہے۔ معصوم بچوں اور بچیوں کے مال کو ہڑپ کرنا یزیدیت ہے۔ مخالف کو کچلنا اور جبراً بیعت اور تائید لے نا یزیدیت ہے۔ آج روح حسین رضی اللہ عنہ ہم سے پکار پکار کر کہتی ہے کہ ”میری محبت کا دم بھرنے والوں! میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت رسمی ہے یا پھر آج تم کوئی معرکہ کربلا برپا کرتے ہو۔ میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ میری محبت میں پھر تم آج وقت کے یزیدیوں کو للکارتے ہو یا نہیں، روح حسین رضی اللہ عنہ آج پھر دریائے فرات کو رنگین دیکھنا چاہتی ہے، آج تمہارے صبر و استقامت کا امتحان لینا چاہتی ہے۔ کہ کون اسلام کا جھنڈا سربلند کرتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگاتا ہے، کون ہے جو مجھ سے حقیقی پیار کرتا ہے۔ حسینیت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جہاں تمہیں یزیدیت کے کردار کا نام و نشان نظر آئے حسینی لشکر کے غلام و فرد بن کر یزیدیت کے بتوں کو پاش پاش کردو۔ اس کے لیے اگر تمہیں مال، جان، اور اپنی اولاد ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے۔

پہلے حسینی کردار کی تجلی اپنے اندر پیدا کرو، سیرت حسین کو اپنے سینے پہ سجالو، اپنی زندگی میں ڈھالو، پھر اس قوت حسینی مزاج و کردار سے یزیدی کردار کی مخالفت کرو اور اس کا مقابلہ کرو۔ کاش ہمیں وہ دل نصیب ہوجائے جس میں عمل و محبت حسین رضی اللہ عنہ ہو۔ کیوں کہ یہ دنیا تو ہر کسی کو چھوڑنی ہے، جس نے اقتدار کے نشے میں اگر لوگوں کا قتل عام کیا، معصوموں کا خون بہایا، ظلم کے پہاڑ گرائے وہ بھی مرگیا، جس نے اپنے سینے پر تیروں کو جگہ دی، شریعت کی پیروی کی، مخلوق کی خدمت کی وہ بھی چلا گیا۔ لیکن یزیدیت تباہی و بربادی کا نام ہے، اور حسینیت محبت و اخوت اور بہادری کا نام ہے۔ جو ظالم ہوکر مرتا ہے وہ خالق و مخلوق کی نظر میں مردود ہے۔ جو عادل ہوکر اپنی جان رب کریم کے حوالے کرتا ہے وہ مقبول ہوجاتا ہے۔ یہ شہادت اک سبق ہے حق پرستی کے لئے، یہی شہادت ہے جو اسلامی تاریخ میں دورِ خلافت کے بعد یہ رقت انگیز واقعہ اسلام کی دینی، سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا ہے۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اور قربانی کے اس عظیم سانحہ نے بلاشک و شبہ اور بلا مبالغہ دنیا کے کسی بھی حادثہ یا سانحہ پر نسل انسانی کو اس قدر غمزدہ نہ کیا، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے جسمِ اطہر سے جس قدر خون دشتِ کر بلا میں بہایا گیا اس کے عوض پوری امتِ مسلمہ اشک ہائے رنج و غم کا ایک سیلاب بہا چکی ہے اور مسلسل بہا رہی ہے او ر بہاتی رہے گی۔ مگر خوں حسینؓ کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا، اللہ ربّ العزت نے بھی واقعہ کربلا کو دوام بخشا اور زندہ و جاوید بنا دیا تاکہ تمام انسان خصوصاً اہلِ ایمان اس واقعہ سے سبق حاصل کرتے رہیں۔ یہی آپ کا جذبہ تھا کہ حسینیت کبھی کسی ظالم و جابر کے سامنے سرخم نہیں کرتی اور کبھی مصیبت میں نہیں گھبراتی۔ وہ مصیبت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے تو خوشی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی ہے۔ ٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *