چند دن افریقہ کے ملاوی میں

[]

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

(۱)
وسطی افریقہ کا ایک ملک ملاوی ہے، جس کی آبادی دو کروڑ دس لاکھ بتلائی جاتی ہے، رقبہ لمبائی میں ۶۰۰؍ کیلو میٹراور چوڑائی میں۲۰۰؍ سو کیلو میٹر ہے، سمندر سے محروم اور خشکی سے گھِرا ہواہے، تنزانیہ، زامبیا اور موزمبیق سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں، ۴۵؍ سے ۵۵؍ فیصد مسلم آبادی ہے ، جو زیادہ تر یہاں کی وسیع وعریض جھیل کے کنارے آباد ہے؛ لیکن حکومت مسلم آبادی کے تناسب کو بہت کم کر کے دیکھاتی ہے؛ کیوں کہ غربت کی وجہ سے اس کو اپنے بنیادی اخراجات کے لئے بھی یوروپین ممالک اور اسرائیل کی مدد کی ضرورت ہے؛ اس لئے حکومت عیسائیوں کی تعداد کو حقیقی تناسب سے بڑھ کر دکھلاتی ہے؛

تاکہ مغربی ملکوں کی مدد حاصل رہے، یہاں کی مقامی زبان کا نام’’ چیچوا‘‘ ہے، جو کینیا کی زبان سہیلیا سے ملتی جلتی ہے، سہیلیا میں عربی زبان کی کافی مشابہت ہے، یہاں اسلام تنزانیہ سے آیا ہے، جو اَب بھی مسلم اکثریت ملک ہے، ایشیا افریقہ کے بہت سے علاقوں کی طرح یہ خطہ بھی برطانوی استعماری طاقت کے زیر تسلط تھا، جو ۱۹۶۴ء میں آزاد ہوا، آزادی سے پہلے یہ ملک رہوڈوشیا کے نام سے ملاوی، زامبیا اور ذمبابوے کا مجموعہ تھا، آزاد ہونے کے وقت عوام کی رضامندی سے یہ الگ الگ ملک وجود میں آگئے، اور ملاوی میں سیکولر جمہوری نظام حکومت قائم ہوا، معاشی اعتبار سے اس کا شمار دنیا کے غریب ترین ملکوں میں ہے؛ لیکن اس کی پچاس فیصد سے زیادہ زمینیں زراعت کے لائق ہیں؛ اس لئے زیادہ تر خوردنی اشیاء ملک کے اندر ہی پیدا ہو جاتی ہے۔

راقم الحروف اپنے دورفقاء کے ساتھ ممبئی ہوتے ہوئے ۲۰؍ دسمبر ۲۰۲۳ء کو ملاوی کی راجدھانی لی لونگ وے پہنچا، اس سفر کا ایک خاص محرک تھا، آسان تفسیر قرآن ( دو جلدیں، تقریبا دو ہزار صفحات) کی تکمیل کے بعد خیال تھا کہ حدیث پر کچھ کام کرنے کی سعادت حاصل کی جائے؛ لیکن اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پس منظر میں راقم نے ’’اسلام پر بے جا اعتراضات‘‘ (۸۰۰؍ صفحات) اور غیر مسلم حضرات کو سامنے رکھ کر ’’ پیغمبر عالم ‘‘ (۵۵۰؍ صفحات) مرتب کی، پھر ایک زمانہ سے ضرورت کے احساس اور بعض احباب کے تقاضہ کی بنیاد پر ’’ آسان علم کلام ‘‘(صفحات ۲۴۴) کی تالیف کا موقع ملا؛ مگر ایک دیرینہ خیال بار بار ذہن کو متوجہ کرتا تھا کہ آخرت میں اس غلام سے آقا کے حضور میں پیش کرنے کی کوئی چیز تیار ہو جائے اور شاید یہی بہانۂ مغفرت بن جائے،

بڑھی ہوئی مصروفیات، صحت کی ناموافقت اور ملاقات کے لئے آنے والوں کی کثرت کی وجہ سے خیال ہوا کہ اپنی قیام گاہ پر رہتے ہوئے اس کام کو انجام دینا مشکل ہے؛ اس لئے چاہ رہا تھا کہ ہندوستان کے ہی کسی شہر میں خاموشی کے ساتھ اپنے ایک دو شاگردوں کو لے کر فروکش ہو جایا جائے، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش ، کرناٹک اور گجرات کے بعض مقامات کی طرف رجحان ہوتا تھا، جہاں ہم سے تعلیم وتعلم کا تعلق رکھنے والے نوجوان موجود ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کی خواہش بھی تھی کہ میں ان کے یہاں اس کام کو کروں؛ لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا کو منظور ہوتا ہے، گجرات کے بعض محبین نے حاجی محمد شمیم صاحب ملاوی سے اس کا ذکر کر دیا جو پہلے سے مجھ سے آشنا ہیں اور بڑی محبت کرتے ہیں، انھوں نے بڑے اصرار ، تاکید اور تسلسل کے ساتھ تقاضہ شروع کر دیا کہ یہ کام میں ان کے یہاں کروں؛ تاکہ ثواب میں ان کی بھی شرکت ہو، میں نے لاکھ سمجھایا منایا کہ اتنا طویل سفر میرے لئے بہت دشوار ہوگا؛ لیکن انھوں نے مان کر نہیں دیا، یہاں تک کہ خاص اسی مقصد کے لئے ایک وفد لے کر ملاوی سے حیدرآباد پہنچ گئے اور مجھ سے اقرار کرا کر ہی چھوڑا ۔

میں نے بھی یہ سمجھ کر کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے، قبول کر لیا اور اس طرح ۲۰؍ دسمبر۲۳ء کو حیدرآباد سے ممبئی اور ممبئی سے ایتھوپیا کی راجدھانی عدیس ابابا اور وہاں سے ملاوی پہنچا، یہ ہوائی سفرائیرپورٹ کے وقفہ کو لے کر تقریباََ ۲۰؍گھنٹوں کا تھا،ہوائی جہاز کا اتنا طویل سفر آسان نہیں ہوتا، میری عمر اور صحت کے لحاظ سے بھی یہ بہت تھکا دینے والا سفر تھا؛ تاہم میزبان نے قدم قدم پر میری سہولت کا لحاظ رکھا، بزنس کلاس کا ٹکٹ بنوایا، میرے دو شاگردوں کو میرا رفیق سفر بنایا، ایک مولوی محمد اکرم رشید لوناواڑا(گجرات) دوسرے مولوی محمد ادریس قاسمی( کشمیر) اس کے علاوہ سفر کی آسانی کے لئے حاجی شمیم صاحب نے اپنے قریبی عزیز مولوی محمد انعم جو گجرات کے رہنے والے ہیں اور ملاوی میں ان ہی کی کمپنی میں کام کرتے ہیں، کو بھی ساتھ آنے کو کہا؛ کیوں کہ وہ وہاں کی زبان اور وہاں کے لوگوں سے ایک درجہ مانوس ہیں،

حقیقت یہ ہے کہ سفر کی طولانی کو میزبان کے جذبۂ محبت اور اپنے عزیز شاگردوں کی رفاقت نے آسان بنا دیا، منزل پر پہنچنے کے بعد بھائی عدنان صاحب، بھائی ذوالکفل صاحب، رضوان صاحب، اور مولانا احمد اللہ صاحب نے جس قدردانی کے ساتھ خدمت کی اور بچھے رہے، اس کا شکریہ ادا نہیں کیا جا سکتا، ہم ممبئی سے رات کے تین بجے نکلے اور اگلے دن عصر کی نماز وہاںکے وقت کے حساب سے وہیں ادا کی، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ میں ممبئی سے فجر کی نماز پڑھ کر چلا اور کم وبیش ۲۰؍ گھنٹے کے سفر کے بعد ملاوی میں عصر کی نماز ادا کی، یقیناََ اللہ تعالیٰ جہاں چاہیں وقت کے فاصلے کو کم کر دیں اور جہاں چاہیں بڑھا دیں۔

میں جب ملاوی پہنچا تو تھک کر چور ہو چکا تھا، مغرب کی نماز پڑھ کر کچھ کھا کر لیٹ گیا ، ایک دو گھنٹہ کی نیند کے بعد آنکھ کھلی تو خیال ہوا کہ جس ارادہ سے آمد ہوئی ہے، اس کو اللہ کا نام لے کر شروع کرنا چاہئے؛ چنانچہ میں نے عشاء کی نماز پڑھ کر آج ہی مجوزہ موضوع پر لکھانا شروع کر دیا، میں املاء کراتا، عزیزی مولوی ادریس سلمہ اس کو لکھتے جاتے، پھر مولوی اکرم سلمہ اس کو ساتھ ساتھ کمپوز کرتے جاتے، شاید موضوع کا ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا، میں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ علامہ شوق نیمویؒ کی ’’ آثار السنن‘‘ کا تکملہ مرتب کردوں؛ کیوں کہ آثار السنن صرف ’’کتاب الصلاۃ‘‘ تک ہے، اس نقطۂ نظر سے عنوانات بھی قائم کئے اور کچھ حدیثیں لکھیں، اہل علم جانتے ہیں کہ آثار السنن فقہ حنفی کے نقطۂ نظر سے حدیث کا بڑا اہم مجموعہ ہے، پھر میں نے دیکھا کہ اس نوعیت کی کئی کتابیں ماضی قریب میں آچکی ہیں، جن میں حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کی ’’اعلاء السنن‘‘ کی تلخیص بھی کی ہے،

یہ اس حقیر کی محبوب ترین کتابوں میں سے ایک ہے، اور حدیث کا درس دینے کے زمانہ میں وہ کثرت سے اس کا مطالعہ کیا کرتا تھا؛ اس لئے احساس ہوا کہ اس کام کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں ہے، پھر خیال ہوا کہ مولانا مفتی عمیم الاحسان مجددیؒ کی ’’معرفۃ السنن والآثار‘‘ پر تعلیق وتحقیق کا کام کیا جائے، مولانا مجددیؒ بڑے بلند پایہ عالم تھے، قواعد فقہ پر ان کی کتاب مدارس کے شعبۂ افتاء میں داخل نصاب بھی ہے، اس کتاب کا ایک قدیم نسخہ مجھے ایک سفر کے درمیان کسی مدرسہ کی لائبریری میں مل گیا تھا، جو مجھے نصابی نقطۂ نظر سے بہت مفید محسوس ہوئی، جس میں ایمانیات، تصوف اور تمام ابواب فقہیہ کا بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ احاطہ کیا گیا ہے، قدیم کتابت شدہ پانچ چھ سو صفحات پر یہ کتاب مشتمل ہے، اس کے مصنف پیدائش کے اعتبار سے بہار کے رہنے والے تھے؛ لیکن ملک کی تقسیم کے بعد مشرقی پاکستان منتقل ہو گئے تھے، جو بعد میں بنگلہ دیش بن گیا۔

ہندوستان کے شہر کلکتہ میں سرکار کے زیر انتظام ایک دینی درسگاہ ’’جامعہ عالیہ ‘‘ پہلے سے موجود تھی، اب ان ہی خطوط پر ڈھاکہ میں جامعہ عالیہ کا قیام عمل میں آیا اور ایک مسلمان حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے بہت جلد اس نے ترقی کی منزلیں طے کر لیں، مولانا مجددیؒ سیاست اور فرقہ بندیوں سے دور رہتے تھے اور انہیں بہت مقبولیت حاصل تھی؛ لیکن شیخ مجیب نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد چوں کہ ڈکٹیٹر کا رنگ حاصل کر لیا تھا؛ اس لئے ان کو مولانا کا ایک اہم عہدہ پر رہنا برداشت نہیں ہوا اور اس نے مولانا کو ریٹائر کر دیا، اس کتاب کا بھی میں نے اپنے خیال کے مطابق اچھی طرح مطالعہ کیا، اس کے منہج کو سمجھنے کی کوشش کی، اس پر کن کاموں کی ضرورت ہے، اس کو لکھا؛ لیکن بعد میں میرے بعض دوستوں نے جن کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے، بتایا کہ بنگلہ دیش میں اس کتاب پر کام ہو چکا ہے اور میرا احساس ہے کہ بہ مقابلہ ہندوستان اور پاکستان کے بنگلہ دیش میں علماء کی نئی پود علمی و تصنیفی کاموں کو زیادہ بہتر طور پر انجام دے رہی ہے اور بڑے لائق وفائق فضلاء وہاں دین اور علم دین کی خدمت میں مشغول ہیں؛ اس لئے خیال ہوا کہ یہ کارِ مکرر ہوگا؛ چنانچہ اس کو بھی چھوڑ دیا گیا۔

اب ایک نیا خیال پیدا ہوا اور وہ یہ کہ ہمارے بعض بے تکلف دوست احباب کہتے ہیں کہ آپ زیادہ تر علماء کے لئے لکھتے ہیں، عوام کے لئے بھی تو کچھ لکھیں؛ تاکہ عام مسلمان بھی فائدہ اُٹھا سکیں، اس پس منظر میں خیال آیا کہ اردو زبان میں حدیث کا ایک مجموعہ مرتب ہو؛ اگرچہ کہ اردو زبان میں حدیث کی بہت سے کتابوں کے ترجمے بھی شائع ہوئے ہیں اور منتخب مجموعے بھی ہیں، جن میں فکری اعتبار سے مولانا بدر عالم میرٹھیؒ کی’’ ترجمان السنۃ ‘‘اور دعوتی نقطۂ نظر سے مولانا منظور نعمانیؒ کی ’’معارف الحدیث ‘‘امتیازی شان کی حامل ہے؛

لیکن ایک ایسا مجموعہ مرتب ہو جو موجودہ دور میں پیدا ہونے والے ملکی اور ملی مسائل کو حدیث کی روشنی میں سمجھاتا ہو، جیسے ماحولیات کا تحفظ، انسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق، خواتین کے حقوق، تعلیم بالخصوص جدید تعلیم اور اس کے مختلف شعبے، طریقۂ تعلیم، موجودہ دور میں پیدا ہونے والے اسلام مخالف افکار وغیرہ، زبان عام فہم ہو ، نیز حدیثیں معتبر ہوںاور حاشیہ پر حدیث سے متعلق محدثین کا کلام بھی اختصار کے ساتھ ذکر کر دیا جائے، حدیث کی شرح اس طرح کی جائے کہ موضوع کے متعلق عصری مواد بھی اس میں شامل ہو جائے۔

راقم الحروف اکتوبر ۲۰۲۳ء میں عمرہ کے لئے بھی حاضر ہوا تھا اور اس وقت خصوصیت سے اس کام کے لئے دعاء کی تھی کہ اگر اس ارادہ میں خیر ہو تو اس پر دل کو مطمئن فرما دے؛ چنانچہ ’’ مطالعۂ حدیث ، عصر حاضر کے پس منظر میں‘‘ کے عنوان سے یہ کام حرم شریف میں ہی شروع کر دیا تھا اور اس مناسبت سے اس کے متعلق کچھ کتابیں بھی وہاں کے کتب خانوں سے خریدی تھیں، ہندوستان واپسی کے بعد سست رفتاری کے ساتھ یہ کام گاہے گاہے ہوتا رہا، ملاوی میں ۲۱؍ دسمبر ۲۰۲۳ء سے ۲؍ جنوری ۲۰۲۴ء تک گویا تیرہ چودہ دنوں قیام رہا، اس میں اس حقیر نے ۳۷۵؍ صفحات املاء کرائے، رفقاء عزیز نے خوش خطی کے ساتھ لکھا، کمپوز کیا اور جہاں میں نے ضرورت محسوس کی نیٹ سے مواد نکال کر دیا، اس طرح بڑ ی حد تک یہ کام مکمل ہوگیا، اللہ تعالیٰ میزبان کو اور ر فقاء سفر کو بہت بہت اجر عطا فرمائے اور اس حقیر کی اس خدمت کو جو صرف دربار نبوی میں سرخروئی حاصل کرنے کی نیت سے کی گئی ہے، اپنے فضل وکرم سے قبول فرمائے۔

راقم الحروف نے میزبان سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہاں میری آمد کے بارے میں پہلے سے کوئی اطلاع نہ دی جائے؛ البتہ واپسی سے دو دن پہلے وہاں کے علماء سے ملاقات اور دینی اداروں پر حاضری کا نظام رکھا جائے؛ چنانچہ دو اور تین جنوری کا وقت اس میں گزرا، اس سے پہلے ایک دن ملاوی جھیل جو’’ سلیما ‘‘نامی شہر میں واقع ہے، جانے کا اتفاق ہوا، سلیما ایک ضلع ہے جو چودھری سلیما کے نام پر ہے، یہاں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے، ۳۰۰؍ مسجدیں ہیں، ایک دینی درسگاہ ’’ سلیما اسلامک سینٹر‘‘ بھی ہے، جس کو جنوبی افریقہ کے بعض اصحاب نے قائم کیا ہے، اس میں زیادہ تر سیاہ فام طلبہ ہیں، مقیم طلبہ کی تعداد ۲۳۰؍ ہے اور دورہ تک تعلیم ہوتی ہے، مالدیپ کے ایک عالم مولانا محمد ادریس حسین شیخ الحدیث ہیں، جو جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل (گجرات) کے فارغ ہیں،

ان کو عربی زبان پر اچھی قدرت ہے ، ادارہ کے ناظم مولانا بلال صاحب ہیں جو جامعہ فلاح دارین ترکیسر کے فارغ ہیں اور وہ خود بھی اصل میں ترکیسر (گجرات) ہی کے رہنے والے ہیں،ان ہی دعوت پر حاضری ہوئی تھی، اساتذہ بڑی محبت سے ملے، ذریعۂ تعلیم عربی زبان ہے اور چوں کہ یہاں زیادہ تر شوافع ہیں؛ اس لئے تقریباََ تمام ہی مدارس میں فقہ شافعی کے پڑھانے کا معمول ہے، اس ضلع کے ہیڈ کوارٹر سلیما نامی شہر میں ایک بہت بڑی جھیل ہے، جو ڈھائی تین سو کیلو میٹر پر مشتمل ہے، اس کی چوڑائی اور گہرائی بھی بہت ہے اور پانی نہایت صاف وشفاف اور پینے کے لائق ہے، اس جھیل کے کنارے زیادہ تر مسلم آبادی ہے، عام لوگوں کے مکانات تو بہت معمولی ہیں؛ لیکن جھیل کے کنارے اچھے ریسورٹ اور فارم ہاؤس بنے ہوئے ہیں، اور یہ زیادہ تر ہندوستان اور خاص کر گجراتی مسلمانوں کے ہیں، ایک دن ہم لوگوں کا سفر اس مشہور تاریخی جھیل کی سیر کے لئے ہوا، جو ہماری قیام گاہ سے تقریباََ دو سو کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع تھی،

ہم لوگ صبح نکلے اور مغرب بعد واپس ہو سکے، یہ بہت ہی خوبصورت اور جاذب نظر منظر تھا اور آلودگی سے بہت ہی محفوظ صاف ستھری فضا تھی، وہاں ملاوی کے ہندوستان نژاد کچھ بڑے تجار اور امریکہ سے آئے ہوئے بعض مہما ن جو مجھ سے غائبانہ واقف تھے جمع ہو گئے، میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے گزارش کی کہ مسلمان کو اللہ تعالیٰ نے دینے والا ہاتھ دے کر بھیجا ہے نہ کہ لینے والا ہاتھ، اگر آپ تجارت اور کاروبار کے ذریعہ یہاں سے کچھ کما کر اور اسے جمع کر کے لے جائیں تو یہ تو صرف لینے والا ہاتھ ہوگا،

ہاں اگر اس کے ساتھ ساتھ آپ نے یہاں کی مقامی آبادی کے درمیان اسلام کا تعارف کرایا اور اللہ اور اس کے رسول کا پیغام ان تک پہنچانے کی کوشش کی تو پھر آپ کا ہاتھ دینے والا ہاتھ ہوگا، اور اِس وقت یہاں اس کے وسیع مواقع میسر ہیں اور تھوڑی سی خدمت برادران وطن کو بہت قریب کر دیتی ہے، وہ ایشیائی لوگوں کو اپنے آپ سے فائق وبہتر سمجھتے ہیں اور ان کی کسی بھی بات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں، سیدھے سادھے لوگ ہیں، جو بات بھلی لگتی ہے، اس کو آسانی سے قبول کر لیتے ہیں، کیوں نہ ان پر دعوتی نقطۂ نظر سے محنت کی جائے، یہ ہمارا دینی فریضہ بھی ہے، اس میں آخرت کی کامیابی بھی ہے اور اس میں دنیا کا فائدہ بھی ہے؛ کیوں کہ اگر ہم نے ان کو اپنے آپ سے قریب نہیں کیا تو مستقبل میں خدا نخواستہ نفرت کی فضاء قائم ہو جائے گی اور جو صورت حال اس وقت ہندوستان میں ہے، اندیشہ ہے کہ ایسی ہی صورت حال یہاں بھی پیدا ہو جائے، اخیر میں ان حضرات کے شرعی مسائل کے جوابات بھی دئیے گئے اور عمدہ کھانوں سے ضیافت ہوئی۔

ملاوی میں کم وبیش دو ہزار مکاتب قائم ہیں، عربی تعلیم کے تقریباََ دس مدارس ہیں، جہاں اونچی جماعتوں تک تعلیم ہوتی ہے، یہاں کا ایک ممتاز تعلیمی ادارہ ’’ المحمود‘‘ کے نام سے قائم ہے، جس کے بانی اور ذمہ دار اعلیٰ مولانا محمد عارف صاحب ہیں، جنھوں نے جنوبی افریقہ میں دارالعلوم آزاد وِل سے فراغت حاصل کی ہے، وہ ماشاء اللہ بہت فعال شخصیت کے حامل ہیں، اس جامعہ کا انتظام وانصرام، دعوت وتبلیغ کا کام اور ملک میں رفاہی کام غرض ہمہ جہت کام انجام دیتے ہیں، وہ ایک دن اس ادارہ کے اونچے اساتذہ کے ساتھ ملاقات کے لئے آئے اورعصر تا مغرب ان سے مختلف امور پر تبادلۂ خیال ہوا، اس ادارہ کی بنیاد ۲۰۰۷ء میں رکھی گئی اور حکومت کی اجازت اور بجلی پانی کے انتظام کے بعد ۲۰۱۲ء میں تعلیم کے سلسلے کا آغاز ہوا، یہاں زیادہ تر ایشیائی طلبہ ہیں، ڈیڑھ سو طلبہ کا قیام ہے، ۲۳؍ اساتذہ خدمت انجام دیتے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ اس میں سولہ سترہ اساتذہ سیاہ فام طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔

مسلم تنظیموں میں سب سے قابل ذکر کام تبلیغی جماعت کا ہے، جس میں ہندوستان پاکستان نژاد حضرات کے علاوہ سیاہ فام افراد بھی شامل ہیں، معلوم ہوا کہ پہلی بار یہاں ۱۹۶۲ء میں تبلیغی جماعت کا وفد آیا تھا اور مولانا موسیٰ سارودی( متوطن گجرات )جماعت لے کر آئے تھے؛ بلکہ ادھر کئی ملکوں میں جماعت کے کام کا آغاز مولانا موسیٰ صاحب ہی کے ذریعہ ہوا، ۱۹۶۷ء میں یہاں تبلیغی جماعت کا عالمی اجتماع ہوا، جو ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش کے بعد عالمی سطح کا پہلا اجتماع تھا، جس میں حلقۂ تبلیغ کے مشہور خطیب مولانا محمد عمر صاحب پالنپوریؒ نے بھی شرکت فرمائی تھی، پھر کسی اور موقع پر جماعت تبلیغ کے دوسرے امیر مولانا انعام الحسن صاحبؒ نے بھی وہاں کا سفر فرمایا، ابھی بھی وہاں سالانہ اجتماع کا معمول قائم ہے، جو کھیتوں کے کٹنے کے بعد ٹھنڈک کے موسم میں منعقد ہوتا ہے؛ چوں کہ دیہاتوں میں غربت بہت زیادہ ہے؛ اس لئے شہر کے مسلمان تجار اجتماع سے پہلے دیہات کے کاشکاروں سے شہر کی قیمت پر (جو بڑھی ہوئی ہوتی ہے) پیداوار خرید کر لیتے ہیں؛ تاکہ دیہات کے لوگوں کے پاس نقد رقم آجائے اور ان کے لئے جماعت میں نکلنا آسان ہو جائے، اس وقت جماعت کے ذمہ دار جناب محمد سراج انجینئر اور ممبئی والے اکرم بھائی پٹیل ہیں، ان حضرات نے ایک سے زیادہ دفعہ آکر ملاقات کی اور بڑی محبت وتعلق کا اظہار کیا۔

(جاری)

٭٭٭



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *