[]
مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، فاطمہ ترابی نے مہر نیوز کے نامہ نگار کو فراہم کردہ ایک یاد داشت میں “کربلا میں خواتین کا ابلاغی کردار” کے عنوان سےحضرت ام کلثوم اور حضرت سکینہ سلام اللہ علیھن کے بیانات پر روشنی ڈالی ہے۔
جو کہ درج ذیل ہے:
عام طور پر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ واقعہ عاشورا کے بعد کربلا کے واحد سفیر امام سجاد علیہ السلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا تھے جنہوں نے اپنے زمانے کے لوگوں اور آنے والی نسلوں تک امام کا پیغام اور ان کے مقصد کو پہنچایا۔
لیکن جب ہم مقاتل کی کتابوں جیسے سید بن طاووس کی لہوف کو پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے حضرت ام کلثوم سلام اور حضرت سکینہ سلام اللہ علیہن نے کس طرح حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے ساتھ مل کر امام حسین علیہ السلام کے پیغام کو پہنچانے میں ابلاغی کردار ادا کیا ہے۔
ان خواتین نے لوگوں کے جذبات کو فکری طور پر ابھار کر اور انہیں فرزند رسول کے مقام کی یاد دلا کر اپنا ابلاغی کردار ادا کیا۔
اس نکتہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام عاشورہ کے موقع پر اپنے اہل و عیال کو نہایت ہوشیاری سے اپنے ساتھ لائے تھے اور انہیں ابلاغی فریضہ سونپ دیا تاکہ ان کی شہادت کے بعد بنی امیہ کا اصل چہرہ سامنے آئے، امام کے ہدف اور پیغام کو دوسروں تک پہنچایا جاسکے اور عاشورہ کو زندہ رکھا جاسکے۔
واقعہ عاشورا کے احیاء میں حضرت سکینہ س کا ابلاغی کردار
بنی امیہ نے میڈیا کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے افواہیں اور جعلی خبریں پھیلا کر رائے عامہ کو اپنے ساتھ ملانے اور امام حسین علیہ السلام کے قیام کو بغاوت کا نام دینے کی بھرپور کوشش کی۔
ایسے تاریک اور زہر آلود ماحول میں مبلغ کو پیغام کی تاثیر اور سامعین کو قائل کرنے کے لیے مناسب تکنیک استعمال کرنا ہوتی ہے۔ حضرت سکینہؓ نے اپنے کلام، فکری کمال اور ادب کے میدان میں اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کے کے ذریعے حضرت زینب س کے شانہ بشانہ موئثر ابلاغی کردار ادا کیا۔
آپ نے شعلہ بیان خطبوں کے ذریعے امامم حسین کے بیانئے کی درست تفسیر پیش کی۔
آپ نے واقعہ کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی تصویر کو درست سامنے رکھا جب کہ کوفیوں کے ذہن میں عاشورہ ایک بغاوت تھی۔
آپ نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد کوفیوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: خدا کے لئے حمد ہے ریت کے ذروں اور عرش سے فرش سے بھی زیاد سائش ہے۔ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس نے ہمیں حاکم بنایا زمین پر اور اس نے ہمیں اپنے فضل سے عزت بخشی، اور اپنے نبی کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا فرمائی۔
تم نے ہمیں جھٹلایا اور تمہارے دل اندھے ہو گئے، تمہارے کان بہرے اور آنکھیں اندھی ہو گئیں، کوفہ والوں پر افسوس!
اے اہل کوفہ! اے چالبازو! اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہارے سبب تکلیف میں مبتلا کیا اور تمہارے ذریعے ہمیں آزمایا اور تمہیں ہمارے ذریعے امتحان میں ڈال دیا اور اس آزمائش پر ہم سرخرو نکلے اور خدا نے ہماری اس آزمائش کی تمجید کی۔
حضرت ام کلثوم سلام اللہ عنہا کا ابلاغی کردار
مستند تاریخی روایات کے مطابق کوفہ کے سوئے ہوئے دلوں کو بیدار کرنے میں حضرت زینب اور حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ امام علی علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم کا کردار بھی نمایاں تھا۔ جب ہم ان کے خطبات اور کلام کو پڑھتے ہیں تو ہمیں ان کے کلام کا انداز اور لہجہ بہت مانوس نظر آتا ہے۔
آپ کے وعظ و نصیحت سے آپ کے والد محترم علی (ع) کی یاد ابھرتی ہے۔
آپ نے ایک بہت ہی فکر انگیز خطبہ دیا، جو نہج البلاغہ کے خطبات سے ملتا جلتا ہے کہ جس میں فصاحت و بلاغات کے اصول واضح نظر آتے ہیں۔ آپ نے کوفیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے کوفیو! تم پر افسوس! تم نے حسین کو تنہا اور بے سہارا چھوڑ دیا؟ تم نے اسے قتل کیا اور اس کا مال لوٹا، اور تم نے ان کی عورتوں کو قیدی بنا کر اذیتیں دی؟ کیا تم جانتے ہو کہ تم نے کون سی آفت خرید لی اور اپنے کندھوں پر گناہ کا کون سا بوجھ اٹھا لیا ہے؟ اور تم نے زمین پر کیا خون بہایا؟ اور کس عظیم ہستی پر ظلم ڈھایا؟ کیا تم جانتے ہوں کہ کن خواتین کا لباس لوٹا اور کن ہستیوں کے اموال لوٹ لئے؟
تم نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہترین ہستی کو شہید کیا۔ تم اس قدر ظالم تھے کہ گویا تمہارے دلوں سے شفقت و مہربانی مٹ گئی۔ لیکن جان لو کہ خدا کی جماعت غالب ہے اور شیطان کی جماعت ہارنے والی ہے۔
آپ نے ان بیانات کے ذریعے امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی یاد زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ سید الشہداء کے قاتلوں کی حیوانیت اور ان کے ظالمانہ اور شیطانی اعمال کو بھی لوگوں پر برملا کیا۔
حضرت ام کلثوم کے خطبے کی تاثیر اتنی جانگداز تھی کہ کوفہ واکوں کو ہلا کر رکھ دیا اور ان کے دلوں میں بنی امیہ کے خلاف نفرت نے جنم لیا اور تاریخ اسلام میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا اور دلوں میں مستقبل کے انقلابات کے بیج بوئے۔