جؤ ۔ تلبینہ اور زراعت، دین اور تاریخ کے حوالوں سے

[]

 از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

سائنسی اعتبار سے باور کیا جاتا ہے کہ اس سر زمین پر انسان کو اپنی موجودہ شکل میں ظاہر (منتقل) ہوئے بیس لاکھ سال بیت چکے ہیں اورماضی کے اس طویل دور میں اس کو مہذب بنے صرف دس ہزار سال کا قلیل عرصہ ہوا ہے۔ مہذب ہونے کاتعلق براہ راست زراعت سے مانا جاتا ہے گویاکہ دس پندرہ ہزار سال قبل انسان بندروں کے مانند جنگلی پھلوں کی تلاش میں رہتا اور جہاں اسے یہ پھل دستیا ب ہوجاتے وہ کچھ دن وہاں ٹھہرتا اورپھر آگے کا سفر اختیار کرتا۔

کبھی کبھی وہ جنگلی جانوروں کا شکار بھی کر لیا کرتا۔ بہر حال خوراک کی خاطر وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہتا اور ’’قیام‘‘ کا خیال دماغ میں نہ لاتا، لیکن کوئی دس ہزار سال قبل جب اس نے جنگلی اناج کوکاشت کرنے کا طریقہ معلوم کر لیا توایک جگہ قیام کرنے لگا اور بستیاں بسانے لگا۔ یہیں سے تہذیب کی داغ بیل پڑی اور وہ اپنے کومہذب سمجھنے لگا۔ انسان کی اس جدوجہد کے اشارے مقدس کتابوں میں بکثرت ملتے ہیں۔

زیادہ تر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ سب سے پہلے جس اناج کی کاشت اس سر زمین  پرکی گئی وہ ’’جؤ‘‘ تھی جسے عربی میں شعیر اور انگریزی میں بارلی (Barley ) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کی کاشت کاعلاقہ مشرقی افریقہ (ایتھوپیا) کے علاوہ مصر، شام اور فلسطین سمجھا جاتا ہے۔

ان علاقوں میں جؤ اور گیہوں کی کاشت کاری کا فن آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے حضرت سلیمان کے دور اقتدار میں اس حد تک عروج پر پہنچ گیا کہ ان کی پیداوار سلطنت سلیمانی سے دوسری سلطنتوں کو سمندری جہازوں کے ذریعہ برآمد کی جانے لگی۔ ہڑپہ کی ثقافت میں بھی جؤ کی کاشت کی جاتی تھی، جو کہ 5700 سے 3300 سال پہلے کے درمیان پھلی پھولی تھی۔

کاشت کے لئے عربی زبان کا لفظ ’’زرع‘‘ مختلف موضوعات کے تحت قرآن پاک اور احادیث میں متعدد بار استعمال ہوا ہے۔ زرع اور زراعہ الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی نو آیات میں انسان کو دعوت فکر دی ہے کہ وہ غور کرے کہ اس زمین میں کیونکر روئیدگی پیدا ہوتی ہے۔ کیسے سبزہ زار اگتے ہیں اور حاصل ہوتے ہیں ’’پھل‘‘ (تمر۔فاکھۃ) اور ’’اناج‘‘ (زرع)۔ (ملاحظہ ہوں سورۃ الانعام کی آیت 142۔ سورۃ النحل کی آیت 11۔ سورۃ الکھف کی آیت 32أ سورۃ الشعراء کی آیت 128۔ سورۃ السجدۃ کی آیت 27۔ سورۃ الزمر کی آیت 21۔ سورۃ الدخان کی آیت 26۔ سورۃ الفتح کی آیت 29 اور سورۃ الحجرات کی آیت نمبر29)۔

احادیث نبوی میں بھی زراعت اور زراعتی پیداوار کے حوالے ملتے ہیں۔ صحیح بخاری کی ایک بہت اہم حدیث میں زراعتی پودوں کی مثال مومن سے دی گئی ہے۔ ملاحظہ ہو کتاب المرضیٰ کے باب 374 کی حدیث نمبر602۔

عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ۔ مثل المومن کالخامۃ من الزرع تفیھاالریح مرۃ وتعدوہ مرۃ ومثل المنافق کالارزۃ لا تزال حتیٰ یکون انجھا منھا من واحدۃ۔

مولانا عبدالحکیم شاہ جہاں پوری نے اس حدیث کا ترجمہ یوں فرمایا ہے  :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مومن کی مثال کھیتی کے پودوں جیسی ہے جنہیں ہوا کبھی ادھر ادھر جھکا دیتی ہے اور کبھی سیدھا کر دیتی اورمنافق کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے کہ ہمیشہ ایک حالت میں رہتا ہے اور تیزہوا ایک ہی دفعہ اسے بیخ و بن سے اکھاڑ پھینک دیتی ہے (راوی حضرت کعب بن مالکؓ)۔

اسی متن کی دوسری حدیث کتاب المرضیٰ (بخاری شریف) میں ہی درج ہے جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے اور جس کا ترجمہ مولانا موصوف نے اس طرح کیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کی مثال کھیتی کے پودوں جیسی ہے۔ جب ہوا آتی ہے تو اسے ایک جانب جھکا دیتی ہے اورجب رک جاتی ہے تو وہ سیدھا ہوجاتا ہے اور بد کار آدمی کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے جو اکثر سیدھا کھڑا رہتا ہے یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تواسے بیخ وبن سے اکھاڑ پھینک دیتا ہے۔

مندرجہ بالا دونوں احادیث میں کھیتی کے پودوں کے لئے لفظ ’’زرع‘‘ کا استعمال ہوا ہے جس کی مثال مومن سے دی گئی ہے جب کہ سیدھے اور اکڑے ہوئے درخت صنوبر (حدیث الارز) کے بدکار آدمی (حدیث۔ فاجر) سے دی گئی ہے۔ انہی معنی اور مفہوم کی ایک تیسری حدیث بخاری شریف کی کتاب التوحید میں مذکور ہے جس کے راوی بھی حضرت ابوہریرہؓ ہیں۔ اس میں اکڑے ہوئے درختوں کے نہ جھکنے کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔

ان تینوں احادیث میں مومنوں کو زرع (کھیتی کے لہلہاتے پودے) کے مثل بتانے کا بہت واضح مقصد ان کو یہ ہدایت دینا ہے کہ وہ ہمیشہ میانہ روی کا راستہ اختیار کریں۔ اصولوں میں لچک اورنرمی پیدا کریں اور بدلے ہوئے حالات اور زمانہ سے سمجھوتہ اختیار کریں اور پھر یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ اعتدال کی روشنی نہ اختیار کرنے کی صورت میں ان کا حشر وہی ہوسکتا ہے جو تیزآندھی میں بظاہر مضبوط درختوں کا ہوتا ہے یعنی یہ جڑ سے اکھڑ کر فنا ہوجاتے ہیں۔

بخاری شریف میں کتاب الرقاق کی چند احادیث بھی ’’زرع‘‘ سے متعلق ارشادات نبوی کی وضاحت کرتی ہیں۔ مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث میں درج ہے:

کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے اعمال میں میانہ روی پیدا کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو۔ اور اللہ تعالیٰ کو سب سے پیارا وہ عمل ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگر چہ کم ہو‘‘۔ (بخاری شریف۔ کتاب الرقاق۔ ترجمہ مولانا عبدالحکیم)۔

اس مضمون کی ایک دوسری حدیث جو حضرت ابوہریرہؓ سے منسوب ہے، اس کے بموجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میانہ روی اختیار کرکے صبح وشام اور رات کے آخری حصہ میں کچھ کرتے رہو یہاں تک کہ منزل مقصود کو جا پہنچو۔ (بخاری شریف۔ کتاب الرقاق۔ترجمہ مولانا عبدالحکیم)۔

زرع کی بابت ساری احادیث مسلمانوں کو سماجی معاملات میں افہام وتفہیم نیز دنیاوی مسائل میں اجماع اور اجتہاد کا راستہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتی ہیں۔ ان احکامات پر عمل کرکے ہی مسلمان اس دنیا میں سرخ رو ہوئے اور سارے جہاں کو نئے علوم سے روشناس کراتے رہے۔ یورپ کے اندھیروں کوبھی روشنی بخشی لیکن جب انہوں نے بدلتے زمانے اور نظام کو نظر انداز کیا، افہام وتفہیم کا راستہ ترک کرکے انتہا پسندی میں وقتی فائدہ محسوس کیا تو عصری علوم سے نابلد ہوئے۔ توہمات کے شکار ہوکر خود اندھیروں میں بھٹکنے لگے اور منزل مقصود سے دور ہوگئے۔

’’جؤ‘‘ کوسائنسی تحقیقات کی بنیاد پر سب سے زیادہ مفید اناج سمجھا جاتا ہے۔ گیہوں کے مقابلہ میں چونکہ جؤ زیادہ زود ہضم ہوتا ہے لہٰذا بیماریوں یا بیماری سے ٹھیک ہوئے کمزور لوگوں کے لئے بہترین غذا ہے۔ اس کا پانی پیشاب آور ہونے کی بنا پر ان مریضوں کودیا جاتا ہے جو گردہ کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ پیٹ کے درد اور قلنج میں فائدہ مند بتایا گیا ہے۔

اس کے بیجوں میں بیکٹریا Bacteria اور فنگس Fungus مارنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ جؤ کے بیجوں میں ایک ایسا وٹامن بھی دریافت ہوا ہے جوکسی دوسرے اناج میں موجود نہیں ہے۔ اس کا نام پانگے مِک ایسڈ Pongamic Acid یا وٹامن بی پندر ((VIT.B15رکھا گیا ہے۔۔ اس کے علاوہ چھلکا نکلی Pearl Barley پورے یورپ میں ایک بہترین دوا تصور کی جاتی ہے۔

زراعتی اناج میں جؤ (نباتاتی نام Hordeum vulgare (کی تاریخ سب سے زیادہ قدیم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی کاشت ایتھوپیا کے علاقہ میں پانچ ہزار سال قبل باقاعدہ ہوا کرتی تھی۔ مصر میں قاہرہ کے قریب فیوم کی کھدائی میں جو کی کاشت کئے ہوئے ایسے دانے دستیاب ہوئے ہیں جن کی بابت کاربن ڈیٹنگ Carbon Dating کی مدد سے بتایا گیا ہے کہ وہ آٹھ سے دس ہزار سال پرانے ہیں۔ دنیا کے تقریباً سبھی اہم عجائب گھروں میں جؤ کے ہزاروں سال پرانے دانے موجود ہیں۔

قبل مسیح کے ایسے اطالوی سکے بھی دستیاب ہوئے ہیں جن پر جؤ کی بالی بنی ہوئی ہے۔ یہ سکے قدیم دور کے روم۔یونان، مصر، شام اور فلسطین میں جؤ کی اہمیت ثابت کرتے ہیں۔ فلسطین میں جؤ کی وقعت ومنزلت کا اندازہ بائبل کی ان بتیس آیات سے ہوتا ہے جن میں جؤ کے کھیت، جؤ کی روٹی اور جؤ کا چارہ وغیرہ کا تفصیلی ذکر ہے۔ جؤ کے لئے بائبل میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہ ہیں ساعورہ، سعورم (عبرانی) اور مرتبین (یونانی)۔

مقدس ویدوں میں عموماً اور رِگ وید میں خصوصاً جؤ کا ذکر ’’یوا‘‘ یا ’’جوا‘‘ کے نام سے ہوا ہے۔ ان تذکروں سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کی آریائی قوموں میں جؤ کا استعمال عام تھا۔

موجودہ دور میں سب سے زیادہ جو کی پیداوار روس، امریکہ، چین اور کینیڈا میں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان، جنوبی اٹلی، جنوبی فرانس، مصر، یونان اور شمالی افریقہ کے چند ممالک میں جؤ کی خاصی کاشت کی جاتی ہے۔ ہندوستان میں ہر سال تقریباً تیس لاکھ ہیکٹر زمین میں کاشت کرکے تین ملین میٹرک ٹن سے زیادہ جؤ کی پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ اس پیداوار کا خاص علاقہ راجستھان ہے۔

پیغمبر اسلام نے اپنے ارشادات کے ذریعے بہت واضح طور پر جؤ کی اہمیت کو بیان فرما دیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ خود بھی ساری زندگی جؤ کا استعمال کرکے اس کی افادیت کو جتایا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر جؤ کی روٹی تناول فرماتے۔ (ترمذی)

صحیح بخاری کی کتاب الاطعمہ کی کئی احادیث جو حضرت انسؓ اور حضرت سوید بن نعمانؓ سے مروی ہیں، کے مطابق حضور اکرم ﷺ بھوک لگنے پر اکثر جؤ کے ستو پھانک لیا کرتے تھے۔ حضورﷺ جؤ یا کسی دوسرے اناج کے باریک پسے ہوئے آٹے کو زیادہ چھاننا پسند نہیں فرماتے تھے۔ کبھی کبھی آٹے سے پھونک کر تھوڑی سی چوکر الگ کردیتے۔ اسی لئے سہل بن سعدؓ سے روایت کی گئی حدیث میں کہا گیا ہے کہ ’’اخیر عمر تک رسول اللہ ﷺ کے حضور کبھی میدہ (چوکر نکلی ہوئی آٹے کی روٹی) پیش نہیں کی گئی‘‘۔ (بخاری)۔

حضور اکرم ﷺ کو جؤ کا کھانا پسند تھا، اسی لئے زیادہ تر صحابہ کرامؓ جؤ کو گیہوں پر ترجیح دیتے تھے۔ چنانچہ ایک واقعہ بیان ہوا ہے جس کی رو سے ایک عورت چقندر کو جؤ کے آٹے کے ساتھ اس طرح پکاتی کہ وہ بوٹیاں لگنے لگیں۔ یہ کھانا وہ جمعہ کے دن بناتی تھی۔ سارے مسلمانوں کو جمعہ کے دن کا انتظار رہتا کیونکہ وہ نمازجمعہ کے بعد اس کھانے کو کھاتے۔ (بخاری۔ کتاب الجمعہ۔ کتاب الاطعمہ۔ راوی۔حضرت سہل بن سعدؓ)۔

حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اہل خانہ میں جب کوئی بیمار ہوتا تو حکم ہوتا کہ ’’اس کے لئے جؤ کا دلیہ تیار کیا جائے، پھر فرماتے تھے کہ یہ دل سے بیماریوں کے غم کو اتار دیتا ہے اوراس کی کمزوری کو یوں اتار دیتا ہے جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنے چہرے کو پانی سے دھوکر اس سے غلاظت اتار دے۔ (سنن ابن ماجہ)

حضرت ام المنذر سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ کے ہمراہ تشریف لائے تو ان کی خدمات میں کھجوریں پیش کی گئیں۔ اس میں سے دونوں نے تناول فرمایا۔ ’’جب حضرت علیؓ نے چند کھجوریں کھا لیں تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں روک دیا اور فرمایا کہ تم ابھی بیماری سے اٹھے ہو اور کمزور ہو۔ مزید مت کھاؤ۔ اس کے بعد ان کے لئے جؤ کی روٹی اور چقندر تیار کئے گئے۔ نبی کریمؐ نے حضرت علی سے فرمایا کہ تم اس میں سے کھاؤ کہ یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ (ابن ماجہ۔ترمذی)۔

بخاری شریف میں مذکور ایک حدیث کے بموجب حضرت عائشہؓ اکثر بیمار کے لئے تلبینہ (جوسے بنا کھانا) تیارکرنے کا حکم دیا کرتی تھیں کیونکہ پیغمبر اسلام ﷺ کے ارشادات کے مطابق ’’یہ بیمار کے لئے از حد مفید ہے‘‘۔

حضرت عائشہ سے ہی مروی بخاری، مسلم، نسائی اور ترمذی کی ایک بہت اہم حدیث بیان ہوئی ہے جس کی رو سے آنحضرت ﷺ تلبینہ کو مریض کے دل کے امراض کا علاج بتاتے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے یہ بھی فرمایا ’’کہ رسولِ خدا ﷺ سے جب کوئی بھوک کی کمی کی شکایت کرتا تو آپ اسے تلینہ کھانے کا حکم دیتے اور فرماتے یہ تمہارے معدوں سے غلاظت کو صاف کردیتا ہے‘‘۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جؤ کوبہت پسند فرماتے تھے۔ اس کے بظاہر دو اسباب تھے، ایک توگیہوں کی نسبت جؤ کا زیادہ فائدہ مند ہونا اوردوسرے گیہوں کے مقابلہ میں جؤ کازیادہ ارزاں ہونا۔ بخاری شریف کی کتاب الزکاۃ میں مذکور ہے کہ ’’حضورﷺ کے عہد میں صدقہ فطر عام طور سے کھجور اور گیہوں کی جو مقدار مقرر کی گئی اس کی دوگنی جؤ کی مقدار طے پائی۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ گیہوں کی قیمت ان دنوں جؤ سے یقینا دوگنی تھی۔

ایک بات یہاں واضح کردینا مناسب ہوگا۔ وہ یہ کہ آنحضرت ﷺ بعض غذائی اشیاء کو بہت پسند تو فرماتے تھے اوردوسروں کو بھی اس کے استعمال کی تلقین کرتے لیکن جو غذائی چیزیں آپ ﷺ کو ناپسند تھیں ان کو کبھی برا نہ کہتے۔ اسی ضمن میں ایک حدیث حضرت ابو ہریرہؓ سے منسوب ہے، جس کا ترجمہ مولانا عبدالحکیم نے اس طرح کیا ہے کہ حضور ﷺ کبھی کسی غذائی چیز میں کیڑے نہ نکالتے یعنی (برا نہ کہتے)۔ (بخاری)۔

بعض فائدہ مند کھانوں کو پسند کرنا لیکن ناپسندیدہ کھانوں کو برا نہ کہنا میانہ روی کی وہ مثال ہے جو ’’روش نبویؐ‘‘ ہے اور جس کی پیروی ہم سب پر لازم ہے۔

نوٹ: 2023 میں جؤ کی عالمی پیداوار 152ملین ٹن تھی۔ پیداوار کی مقدار کے لحاظ سے اناج میں مکئی، چاول اور گندم کے بعد  جؤ چوتھے نمبر پر ہے۔ روس جؤ پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے بعد اسپین، جرمنی، کینیڈا، فرانس، آسٹریلیا اور ترکی کا نمبر آتا ہے۔

ہندوستان میں جؤ کی کاشت سب سے زیادہ راجستھان میں ہو تی ہے۔ اس کے بعد اتر پردیش، پنجاب اور مدھیہ پردیش کا نمبر آتا ہے۔ چاول، گندم اور مکئی کے بعد اناج کی چوتھی اہم ترین فصل جؤ ہے۔

جؤ میں  فاسفورس، سیلینیم، کاپر اور وٹامن بی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ دل کی بیماری اور ٹائپ 2 ذیابیطس کے خطرے کو کم کرنے کے لئے نہایت موزوں غذا ہے۔ جؤ روزانہ استعمال کرنے سے خون میں کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے جو کہ دل کی بیماریوں کے لئے خطرہ ہے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *