حزب اللہ کے رضوان اسپیشل سروس گروپ نے صیہونیوں کی نیندیں حرام کر دیں

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اگرچہ غزہ پر غاصب صیہونی حکومت کے حملے پچھلے تین مہینوں سے بھی زیادہ عرصے سے حملے جاری ہیں اور 23 ہزار سے زائد فلسطینی شہری صیہونیوں کی نسل پرستی کا شکار ہوچکے ہیں لیکن تل ابیب اور صیہونی آبادکاروں کو شدید مزاحمت اور خوف کا سامنا ہے۔

حزب اللہ نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے ایک دن بعد 8 اکتوبر کو براہ راست اس جنگ میں حصہ لیا اور اپنے شدید حملوں کے ذریعے مقبوضہ فلسطین کے شمالی محاذ میں غاصب فوج کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے۔
 
مقبوضہ شمالی علاقے میں خوف کی لہر اور ویرانگی

ان دنوں صیہونی آبادکاروں کی الٹی ہجرت میں تیزی آچکی ہے ابھی کچھ دن پہلے صیہونی حکومت کے ٹی وی چینل 12 نے رپورٹ دی تھی کہ تل ابیب نے شمالی سرحدوں میں کشیدگی کے ساتھ 65 ہزار آباد کاروں کو وہاں سے نکال دیا ہے لیکن اس وقت ہزاروں لوگ سرحدوں کے بالکل قریب علاقے میں موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے علاقہ چھوڑ دیا اور انہیں حکومت کی مدد کے بغیر اس انخلاء کے اخراجات خود ادا کرنے پڑے۔

اسی لئے شمالی سرحدوں سے تقریباً پانچ کلومیٹر تک کی ملحقہ بستیاں ویران پڑی ہیں اور آباد کاروں میں سے تقریباً بیس ہزار کریات شیمون کے باشندے ہیں۔ 

اس وقت صیہونی حکومت کے اہلکار اپنے ماضی کے تجربات سے پریشان ہیں کہ صیہونی آبادکار مقبوضہ علاقوں میں واپس نہیں جائیں گے کیونکہ وہ حزب اللہ کے حملوں کے مقابلے میں آباد کاروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔

2006 کی جنگ میں صیہونی رجیم نے حزب اللہ کو لیطانی (لبنان کی سرزمین پر لبنان فلسطین بارڈر) کی دوسری طرف دھکیلنےکا اعلان کیا لیکن وہ ناکام رہی۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونی آباد کار تل ابیب حکام کے خالی وعدوں پر بھروسہ کھو چکے ہیں۔ 

حزب اللہ کے رضوان اسپیشل سروس گروپ نے صیہونیوں کی نیندیں حرام کر دیں

صہیونی حکام اس حقیقت کو پوری طرح سمجھ چکے ہیں کہ حزب اللہ کے خوف کی وجہ سے آباد کار علاقوں کو واپس نہیں لوٹ رہے۔ اس سلسلے میں صیہونی پارلیمنٹ کے رکن الموگ کوہن نے کہا: اگر دشمن کو تباہ نہیں کیا گیا تو اسرائیلی اپنی بستیوں میں کبھی واپس نہیں جائیں گے۔

صیہونی آباد کاروں کے خوف کی گہرائی اور سیکورٹی فراہم کرنے میں غاصب رجیم کی مایوسی کا اندازہ کریات شیمون میونسپلٹی کے نام سے مشہور ادارے کے سربراہ “اویخائی سٹرن” کے اعلان سے کیا جا سکتا ہے، جنہوں نے کہا: جب میں نے سرحد پر حزب اللہ کے دستوں کی موجودگی کی ویڈیو دیکھی تو ان کی گشت دیکھ کر میں حیران رہ گیا حالانکہ اسرائیلی فوج نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ اب سرحدوں پر حزب اللہ کا کوئی بھی عنصر نظر نہیں آئے گا لیکن وہ واپس آ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیا 7 اکتوبر کے بعد بھی کسی کو سرحدوں کے پیچھے ہمارے دشمنوں کے ارادوں، دھمکیوں اور صلاحیتوں پر شک ہے؟

حزب اللہ کے اسپیشل سروسز گروپ کی صیہونی آباد کاروں پر دہشت

لبنان کی حزب اللہ نے “رضوان” اسپیشل سروسز گروپ کے نام سے 2,500 فورسز پر مشتمل یونٹ کو تربیت دی ہے جو بظاہر شام میں موجود ہے اور اس کے پاس اہم جنگی تجربہ ہے۔

صیہونی حکومت کے ماہرین اور صحافیوں کے نزدیک رضوان افواج کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور حکومت کے ذرائع ان فورسز کو تجربہ کار کمانڈوز سے تعبیر کرتے ہیں۔

صہیونی اخبار یدیعوت احرونوت کے عسکری امور کے تجزیہ کار یو سی یہو شوا نے اعتراف کیا کہ “جب تک رضوان یونٹ لبنان کی سرحد پر ہے، شمالی علاقے کے آبادکاروں کی اپنے گھروں کو واپسی ممکن نہیں ہے۔

حزب اللہ کے رضوان اسپیشل سروس گروپ نے صیہونیوں کی نیندیں حرام کر دیں

صہیونی عسکری حلقوں کے مطابق رضوان یونٹ کے جنگجو بہت ہنر مند ہیں اور انہوں نے سخت تربیت حاصل کر رکھی ہے۔ وہ ٹینک شکن ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد استعمال کرتے ہیں۔ ان میں طویل فاصلہ طے کرنے، پہاڑی علاقوں میں مشکل مشن انجام دینے اور خفیہ اور حساس فوجی مشن کو برق رفتاری سے انجام دینے کی پیشہ ورانہ مہارت موجود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ صیہونی میونسپلٹی کے سربراہ اویخائی سٹرن نے اسرائیلی ٹی وی چینل 14 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو اور گیلنٹ ہمیں بتاتے ہیں کہ رضوان یونٹ سرحدوں سے ہٹ گیا ہے لیکن ہم اس یونٹ کی فورسز کو ہر روز دیکھتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ سرحدوں پر کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں ہم سرکاری حکام سے زیادہ جانتے ہیں۔

نتجہ

طوفان الاقصیٰ اور لبنان کی حزب اللہ کی طرف سے مقبوضہ علاقوں کی شمالی بستیوں پر روزانہ راکٹوں کی بارش کے بعد نہ صرف مقبوضہ فلسطین سے باہر کے یہودی ان مقبوضہ علاقوں میں آنا نہیں چاہتے بلکہ ان علاقوں کے آبادکار بھی موقع ملتے ہی بھاگنے کی تیاری کرچکے ہیں۔ طوفان الاقصی کے بعد  صیہونیوں کی الٹی ہجرت کے طوفان میں تیزی آئی ہے۔

کیونکہ معاشی کے مسائل کے علاوہ صہیونی بستیوں کی حفاظت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے اور تل ابیب حکام انہیں سکیورٹی فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔

ایسی صورت حال میں غصب شدہ زمینوں کے آبادکار فلسطین چھوڑنے کے لیے پہلے سے زیادہ پرعزم نظر آتے ہیں۔ الٹی ہجرت میں اضافے کی لہر میں تیزی آنے کی وجہ غاصب رجیم کا داخلی بحران بھی ہے۔ اگر غزہ میں جنگی جرائم جاری رہے تو صیہونی آبادکاروں کی الٹی ہجرت مزید زور پکڑے گی۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *