ایران اور پاکستان کی ہمسائیگی پالیسی اور دوطرفہ تعاون کی ضرورت

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اگرچہ پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا تاہم علاقائی بحرانوں کے اس تاریخی دور سے لے کر اب تک ایران کے ساتھ اس کے تعلقات کی سطح میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ایران اور پاکستان کے درمیان امن، حوالگی اور ثقافتی تعاون کے معاہدے تھے۔ 

1955 میں ایران اور پاکستان نے بغداد معاہدے میں اپنے سیکورٹی اور اسٹریٹجک تعاون کو بڑھایا۔ 

1958 میں عراق میں دونوں ممالک نے سیکورٹی تعاون جاری رکھنے کی ضرورت پر مبنی خصوصی اقتصادی، سیاسی اور سیکورٹی تعلقات کی ایک نئی شکل سینٹو معاہدے” کے فریم ورک کے اندر بنائی۔

پاکستان کا شمار جنوب مغربی ایشیا کے ان علاقائی ممالک میں ہوتا ہے جو ایران کی ہمسائیگی کی پالیسی کے حوالے سے موثر کردار ادا کرتے ہیں۔

 ایران اور پاکستان کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ دونوں ہمسایہ ہیں۔

دوسرا یہ کہ ثقافتی یکسانیت کے باوجود مختلف اور متنوع خصوصیات کے حامل  ہیں۔ 

تیسرا یہ کہ پاکستان اور ایران علاقائی معاہدوں کے فریم ورک کے اندر سیکیورٹی تعاون کی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ 

چوتھی خصوصیت یہ کہ ایران نے ہمیشہ ایران، پاکستان اور چین کے درمیان کثیرالجہتی تعاون کی سطح کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔

پڑوسی پالیسی کا پہلا مرحلہ دو طرفہ اور کثیر جہتی یادداشت کی تیاری ہو گا۔ ایران پاکستان کے درمیان تعلقات کی بنیاد علاقائی ماحول میں اقتصادی اور سیکورٹی تعاون کی سطح کو بلند کرنے کے لیے تعمیری تعاون کے اشارے پر ہو گی۔

تاہم اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہر جغرافیائی علاقے میں پڑوسی پالیسی کے اپنے اختلافات اور امتیازات ہوتے ہیں اور اسی بنیاد پر ایران اور پاکستان کے تعلقات میں پڑوسی پالیسی کی ایک خاص شکل کی وضاحت ضروری ہے۔

1۔ نظریہ ہمسائیگی اور دوطرفہ یا کثیر الجہتی علاقائی تعاون کی سطح کو بہتر بنانا

ایران اور پاکستان کے پاس ای سی او تعاون تنظیم اور شنگھائی معاہدے کی صورت میں دو طرفہ علاقائی اور کثیرالجہتی تعاون کی سطح کو بہتر بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔

نظریہ ہمسائیگی کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی کے طور پر اس ریاست کی فکری اور ثقافتی صلاحیتوں اور طاقت کے بہاو میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

تاریخی لحاظ سے ایک لچکدار ریاست ہی ہمسائیگی کے نظرئے پر یقین کر سکتی ہے اور اس پر عمل کر سکتی ہے۔

خارجہ پالیسی کے میدان میں ایرانی فکر تعمیری تعاون کی بنیاد پر تشکیل پائی ہے۔ ایسا خیال اچھے پڑوسی کی افزائش کی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ 

ایرانی فکر کی بنیادیں اہم ہیں کیونکہ وہ طاقت، تعاون اور مزاحمت کے باہمی تعلق کی عکاسی کرتی ہیں۔ 

اس فکر میں ہمسائیگی کی پالیسی کا بنیادی محور تعاون پر مبنی ہے اور علاقائی سطح پر ہم آہنگی کا مقصد شراکت دار پڑوسی پالیسی کے اہم نتائج میں سے ایک ہے۔

2. علاقائی بحرانوں کے دوران ہمسائیگی پالیسی کے استعمال کی مقتضیات

جنوب مغربی ایشیا کو سرد جنگ کے بعد کے سالوں میں سکیورٹی کے بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس صورتحال میں ایران تعاون پر مبنی میکانزم کے ذریعے پاکستان سمیت علاقائی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کی سطح کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ 

ہمسایہ پالیسی صدر رئیسی کی حکومت کے اہم اہداف میں سے ایک رہی ہے وہ پڑوسی پالیسی کو علاقائی توازن اور مغرب کی بالادستی کے مقابلے کے طور دیکھتے ہیں۔

ایران کی طرف سے پڑوسی پالیسی کے اطلاق کی بنیادی وجہ ایرانی ثقافتی ادراک کی شکلوں پر مبنی تھی۔ چونکہ ایران کے 15 علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں، اس لیے یہ فطری بات ہے کہ وہ پڑوسی پالیسی کے طریقہ کار سے فائدہ اٹھائے گا اور اس طرح کے ماڈل کو اپنی اسٹریٹیجک ضروریات کے تحت اپنے ایجنڈے پر رکھے گا۔ کیونکہ ہمسائیگی کی پالیسی ایران کو اقتصادی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی بنیاد فراہم کر سکتی ہے۔

3. ایران پاکستان تعلقات میں پڑوسی پالیسی کے عناصر

ایران اور پاکستان کی ہمسائیگی پالیسی کا پہلا موثر عنصر ایرانی فکر اور اسلامی انقلاب کی ضروریات پر مبنی تھا۔ ایرانی فکر بقائے باہمی پر مبنی تھی اور علاقائی ماحول میں اس کا طرز عمل اس بات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایران اور پاکستان ایک جغرافیائی سیاسی بحران کا شکار ہیں اور یہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں زیادہ موثر مشترکہ تعاون کی بنیاد فراہم کر سکتا ہے اور سکیورٹی تنازعات کو مشترکہ تعاون کے تزویراتی مواقع میں تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

ہمسائیگی کی پالیسی کا دوسرا عنصر براہ راست مسائل سے متعلق ہے جیسے جغرافیائی قربت، ثقافتی، لسانی اور مذہبی مشترکات، اقتصادی تبادلوں کا حجم اور گہرائی، مشترکہ مفادات وغیرہ جو دونوں ممالک کی ہمسائیگی کو استحکام بخشتے ہیں۔

4. ایران کے اسٹریٹجک اور جیو پولیٹیکل اہداف کے لیے پڑوسی پالیسی کی مقتضیات

21ویں صدی کی تیسری دہائیوں میں علاقائی ممالک کو ہمسائیگی اور عالمی سطح پر اپنے تعاون کی سطح کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ایرانی سوچ میں دوستی کی پالیسی کے ذریعے خطرات سے نمٹا جا سکتا ہے۔ دوستی کی پالیسی کا مطلب غالب کھلاڑیوں کی  طاقت کے میکانزم کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہمسائیگی کی پالیسی کا مقصد نہ صرف اقتصادی شراکت داری ہوگا بلکہ بین الاقوامی اصول کے حصے کے طور پر دوستی کے آثار بھی ظاہر ہوں گے۔ تشدد کی مخالفت اور ایک دوسرے سے تعلق کا احساس خطرات سے نمٹنے کے لیے ایرانی رویے کے انتظامات کا حصہ ہوگا۔

ہمسائیگی کی پالیسی ایسے حالات میں ایران کے لیے اہم اور مطلوب ہے جب پاکستان کے ساتھ تعلقات کی ترقی اسلامی جمہوریہ کے اسٹریٹجک وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ مشرقی ایشیا کے علاقائی ممالک نے اقتصادی تعاون کی علامات کی بنیاد پر ایک مقام پایا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو بھی علاقائی ممالک کے ساتھ تعاون پر مبنی اقدامات اور ہمسایہ پالیسی کو آگے بڑھانے کی بنیاد پر اپنے طرز عمل کی پیروی کرنا ہوگی۔ ایسی صورتحال میں دوطرفہ اور کثیر جہتی تعاون کی سطح کو بڑھانے کے لیے راہ ہموار کی جانی چاہئیے۔

نتیجہ

اگر ہمسائیگی کی پالیسی کو ایجنڈے پر رکھا جائے تو پاکستان لامحالہ ایران کے علاقائی تعاون کے مستقبل میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان ہمسایہ پالیسی کے فریم ورک کے اندر کوئی بھی تعاون مستقبل کے تنازعات کو روک سکتا ہے۔ پاکستان قبائلی سیاست اور بنیاد پرستی کو اپنے ایجنڈے پر رکھ سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان اور سعودی عرب سلفی بنیاد پرست نظریات کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے علاقائی تعاون کی سطح کو بہتر بنائیں گے۔

اگر پاکستان کو بنیاد پرست سلفی پالیسیوں کے فریم ورک میں رکھا جاتا ہے اور سلفی گروہوں کے ساتھ اپنے تعاون کو ایجنڈے پر رکھتا ہے تو دوطرفہ تعلقات اور علاقائی ماحول میں سلامتی کے تصادم کے آثار ضرور نظر آئیں گے۔ 

ایران کے پڑوسی ممالک کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے جس میں 15 ممالک شامل ہیں، قومی مفادات کے تحفظ اور پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کو برقرار رکھنے پر مبنی پڑوسی پالیسی ملک کے مختلف سیاسی، سیکورٹی، اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کے انتظام کے لیے ضروری فریم ورک ہے۔

ایران اور پاکستان کے درمیان اقتصادی، ثقافتی اور سیکورٹی تعاون کی سطح کو بہتر بنانا، ایران، چین اور پاکستان کو علاقائی ماحول میں اقتصادی ترقی کے لیے طاقت کی مساوات میں بدل سکتا ہے۔ اس طرح کے تعاون سے ایران اور پاکستان کی سلامتی کے عنصر میں بہتری آتی ہے۔

ایران پاکستان تعلقات میں ہمسائیگی کی پالیسی کی ضرورتیں نہ صرف باہمی طاقت کے مساوات کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہیں بلکہ علاقائی تنازعات کو وسعت دینے کی بنیاد بھی فراہم کرتی ہیں۔ 

پڑوسی پالیسی کے فریم ورک میں ایران اور پاکستان کے درمیان باہمی تعلقات کی سطح کو بہتر بنانے، انتہا پسندی، دہشت گردی اور علاقائی ماحول میں بحران پیدا کرنے والے گروہوں سے نمٹنے کی ضروری صلاحیت موجود ہے۔

تجزیہ کار: محمد علی صنوبری

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *