[]
مرکزی حکومت کی طرف سے 28 دسمبر کو ایک گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرز کی تقرری سے جڑے نئے اصولوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز کی تقرری سے متعلق نئے قانون کے خلاف ایک عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے۔ اس عرضی میں عدالت سے مرکزی حکومت کو چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز کی تقرری کے لیے غیر جانبدار اور خود مختار سلیکشن کمیٹی کی تشکیل سے متعلق ہدایت دینے کی گزارش کی گئی ہے۔ مفاد عامہ عرضی (پی آئی ایل) میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کو انتخابی کمشنرز کی تقرری میں پوری طرح شفافیت برتنی چاہیے۔
واضح رہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے 28 دسمبر کو ایک گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرز کی تقرری سے جڑے نئے اصولوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز (تقرری، سروس کی شرائط اور دفتر کی مدت کار) قانون کو لے کر جمعہ کو یہ سرکاری نوٹیفکیشن جاری ہوا تھا۔ اس میں چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز کی تقرری کے لیے صدر جمہوریہ کو سفارشات کرنے کے لیے وزیر اعظم، اپوزیشن لیڈر اور ایک مرکزی وزیر کی صدارت میں سلیکشن کمیٹی بنانے کی سہولت ہے۔
چیف الیکشن کمشنر/کمشنر کی تنخواہ کے سلسلے میں سیکشن 10 میں ترمیم کی گئی ہے۔ کمشنرز کو ابھی سپریم کورٹ کے ججوں کے برابر تنخواہ ملتی ہے، لیکن نئے قانون کے تحت اس میں کمشنرز کی تنخواہ کابینہ سکریٹری کے برابر کر دی گئی۔ کابینہ سکریٹری کی تنخواہ ججوں کے یکساں ہے، لیکن بھتوں و دیگر سہولیات میں کافی فرق ہے۔ سروس شرائط سے جڑے سیکشن 15 میں ترمیم کے ساتھ سیکشن 15(اے) جوڑا گیا ہے، جو الیکشن کمشنرز کے قانونی تحفظ سے جڑا ہے۔ سیکشن 15 میں کمشنرز کے سفری بھتہ، میڈیکل، ایل ٹی سی و دیگر سہولیات کا ذکر ہے، جبکہ 15(اے) میں کہا ہے کہ انتخابی عمل کے دوران چیف الیکشن کمشنر یا انتخابی کمشنر جو فیصلے لیں گے، اس کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہو سکے گی، نہ ہی فیصلوں کو عدالت میں چیلنج دیا جا سکے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
;