مہیلا منڈلیوں نے شہر میں دہشت پھیلا رکھی ہے۔ عموماً غریب بستیوں میں رہنے والے ان کے ظلم کا شکار ہورہے ہیںان منڈلیوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ گرفتاری کا خوف دلا کر ہزاروں روپیہ وصول کررہی ہیں

[]

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ خوف و دہشت کے ماحول میں غریب عوام ان لوگوں کا شکار ہورہے ہیں۔
٭ سوشیل سروس کی آڑ میں یہ بلیک میلنگ کا دھندہ ہے۔
٭ ان لوگوں کو ایک روپیہ دینے کی ضرورت نہیں۔
٭ ان لوگوں کو کسی کو بھی دفتر طلب کرنے کا اختیار نہیں۔
٭ ہراسانی کی صورت میں قانونی رائے طلب کرنا چاہیے۔
کسی (NGO) کی آڑ میں شہر میں ایک دہشت گرپا کردینے والی کیفیت پیدا کی جارہی ہے۔ یہ مصیبت عموماً غریب بستیوں میں ہورہی ہے جہاں نہ مناسب تعلیم ہے اور نہ ہی ذرائع روزگار ۔ اس دہشت گردی کا شکار غریب خواتین اور ان کے لواحقین ہورہے ہیں اور انہیں آفس طلب کیا جارہا ہے۔ NGO کے سربراہ کے ہاتھوں میں ایک کاغذات کا پلندہ ہوتا ہے جو ان لوگوں کے تئیں وہ شکایات ہیں جو مظلوم خواتین نے ان کے شوہروں اور سسرالی عزیزوں کے خلاف ان کے روبرو پیش کی ہیں۔ عموماً شکایت میں زائد جہیز کے مطالبات ‘ مار پیٹ اور دیگر مظالم ہوتے ہیں جو یا تو سراسرغلط ہوتے ہیں یا ان میں مبالغہ آمیزی ہوتی ہے۔ جن خواتین کو طلب کیا جاتا ہے یا ساتھ لے جایا جاتا ہے ان کا تعلق معاشرہ کے نچلے طبقات سے ہوتا ہے جن کے ذرائع آمدنی بہت محدود ہوتے ہیں۔ ان میں اکثر ایسی خواتین ہوتی ہیں جوگھروں میں کام کرتی ہیں۔ ان کے گھر والے ٹھیلہ بنڈیوں والے‘ مزدور پیشہ ہوتے ہیں جن کی روزانہ کی آمدنی ان کے روزانہ اخرجات سے بھی کم ہوتی ہے۔ ایسی خواتین سے معاملہ کی یکسوئی اور مصالحت کروانے کے عنوان پر ہزاروں روپیہ وصول کئے جارہے ہیں۔ معاشرہ کے غریب طبقات کے پاس نہ تو تعلیم ہی ہے اور نہ کوئی منفعت بخش کاروبار۔ کسی بھی جھوٹی اور بے بنیاد شکایت کی بناء پر ان غریب طبقات کا استحصال کسی جرم سے کم نہیں۔ ایسی غیر قانونی تنظیموں کے خلاف فی الفور شکایت درج کروانے کی ضرورت ہے ورنہ ان نام نہاد سوشیل ورکرس کے حوصلے اور بلند ہوجائیں گے۔
ایسے لوگ جو کسی تنظیم سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اگر آپ کے گھر آئیں تو ان سے بچئے کہ آپ ان کے دفتر جانے کے پابند نہیں اور یہ بھی کہیئے کہ ان کو آپ کو دفتر طلب کرنے کا کوئی قانونی حق نہیں۔ یہ حق تو صرف پولیس کو حاصل ہے کہ وہ بربنائے شکایت آپ کو زیر دفعہ41-A ضابطۂ فوجداری نوٹس جاری کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن طلب کرے اور شکایت کنندہ خاتون کی موجودگی میں آپ سے سوالات کرے۔
لیکن پولیس کے ان اختیارات کو ان تنظیموںنے چھین لیا ہے اور وہ خود پولیس کا رول ادا کررہی ہیں۔ ایک ایسا حقیقی واقعہ حالیہ دنوں میں ہمارے روبرو لایا گیا جس میں ایک غریب خاتون جو چار گھروں میں ماہانہ دو ہزار روپیہ تنخواہ پر کام کرتی ہے ‘ اس سے پندرہ ہزار روپیہ کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ نہ توکوئی قاضی صاحب تمہارے مسئلہ کو حل کرسکتے ہیں اور نہ ہی پولیس ۔ یہ سب ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ ہم خلع کی کارروائی مکمل کردیں گے لیکن تمہیں یہ رقم ادا کرنی ہوگی۔ بے چاری کا بیٹا ایک دوکان میں کام کرتا ہے اور دس ہزار روپیہ تنخواہ پاتا ہے۔ صرف ایک کمرہ میں زندگی ہے۔ یہ بے چاری اتنی بھاری رقم کہاں سے فراہم کرے گی جو اس کی دو ماہ کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہے۔ اس خاتون کی شکایت پر جب(NGO) کی سربراہ خاتون سے بات کی گئی تواس نے سراسرانکار کردیا اور کہا کہ ہم سوشیل ورک کرتی ہیں اور اس کام کو بغیر کسی معاوضہ کے انجام دیتی ہیں۔ آپ کو غلط اطلاع فراہم کی گئی۔ ہم نے کسی رقم کا مطالبہ نہیں کیا۔ یہ سراسر ہم پر الزام ہے۔
مسلم سماج کے بااثر حضرات سے اپیل ہے کہ اگرایسا کوئی واقعہ ان کے علم میں آئے تو غیر تعلیم یافتہ مسلم خواتین کو اس قانونی موقف سے آگاہ کریں اور تلقین کریں کہ ایسی تنظیموں کو ایک روپیہ بھی دینے کی ضرورت نہیں۔ سوشیل سروس کی آڑ میں بلیک میل کا یہ دھندہ قابلِ مذمت ہے۔ ان لوگوں کے ہاتھ بڑھتے جارہے ہیں جن پر روک وقت کا شدید تقاضہ ہے۔ اپنی کم علمی اور قانون سے ناواقفیت کی وجہ سے بہت غریب طبقات کے لوگ بے جا ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں اور ان تنظیموں کی حوصلہ شکنی وقت کا شدید تقاضہ ہے۔
جائیداد کی بذریعہ ہبہ منتقلی یا آپسی معاہدہ کے تحت تقسیم وقت کا شدید تقاضہ
خطرناک قوانین دستک دے رہے ہیں
جائیداد کی بعد از مرگ تقسیم کئی مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ اس بات کا امکان رہ جاتا ہے کہ حقیقی ورثاء خصوصاً خواتین مثلاً بیٹیاں‘ بہنیں اور بیوہ کو محرومی کا سامنا کرناپڑسکتا ہے۔ بعض صورتوں میں فوت بیٹے کے ورثاء محروم ہوجاتے ہیں۔ محروم بہنیں مجبور ہوکر عدالت سے تقسیم ترکہ کے حصول کا مقدمہ دائر کرتی ہیں اور ایسے مقدمات کئی سال تک چلتے رہتے ہیں۔ اگر اوپری عدالت میں اپیل دائر ہو تو معاملہ مزید کئی سال تک چلتا رہے گا۔ علاوہ ازیں بعض خطرناک قوانین دستک دے رہے ہیں جن میں سرفہرست یونیفارم سیول کوڈ ہے جسے موجودہ حکومت کبھی بھی منظورکرواسکتی ہے اور اس طرح الیکشن سے پہلے کئے گئے تین وعدوں کی تکمیل ہوجائے گی اور تیسرے دورِ اقتدار کے لئے راہ ہموار ہوگی۔
لیکن اس سے پہلے کہ یہ بجلی امت مسلمہ پر گرے‘ بہتر یہی ہوگا کہ اپنے تمام عائلی مسائل کو اپنے گھر کی چار دیواری ہی میں حل کرلیا جائے۔
سب سے اہم اور نازک مسئلہ تقسیم ترکہ کا ہے۔ اگر صاحب جائیداد بقید حیات ہوں تو وہ اپنی مرضی سے بذریعہ ہبہ اپنی جائیداد اپنے بیٹی بیٹوں میں ان کے حق کے مطابق یا کچھ کم کچھ زیادہ کی اساس پر تقسیم کرسکتے ہیں اور دستاویز کو اپنی گرفت میں رکھ سکتے ہیں۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے رجسٹریشن کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ دوسری جانب اگر جائیداد تقسیم طلب ہو اور تمام ورثاء بقیدِ حیات ہوںتو وہ آپس میں ایک (Deed of Family Settlement) کے ذریعہ تقسیم کرسکتے ہیں۔ انہیں(Partition Deed) کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیوں کہ سپریم کورٹ نے نومبر2023ء میں صادر ایک فیصلہ میں کہا ہے کہ اگر جائیداد میں تمام لوگ اپنا حق رکھتے ہیں تو آپسی تقسیم نامہ کے رجسٹریشن کی ضرورت پیش نہےں آئے گی اور یہ تقسیم نامہ اسی قدر موثر ہوگا جتنا کہ ایک رجسٹر شدہ دستاویز۔ لہٰذا اس عمل کی تکمیل جس قدر ہوسکے کرلینی چاہیے۔
رجسٹر شدہ بیع نامہ کی تنسیخ کا مقدمہ
Suit for The Cancellation of sale deed
السلام علیکم میں ایک NRI ہوں اور گزشتہ 35 سال سے ایک خلیجی ملک میں ملازمت کرتے ہوئے کچھ کاروبار بھی کررہا ہوں۔ میں نے ایک قطعہ اراضی موازی300 مربع گز ایک صاحب سے بذریعہ رجسٹری خریدی اور بعد میں میونسپل کارپوریشن سے اجازت طلب کرکے ایک G+4 رہائشی اور کمرشیل کامپلکس تعمیر کیا جس کا معقول کرایہ آرہا ہے ۔ اچانک میرے حیدرآباد کے پتہ پر ایک رجسٹرڈ قانونی نوٹس موصول ہوئی جس میں ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ اس نے میری اراضی کو خریدنے کا معاہدہ اس شخص سے کیا تھا اور تقریباً نصف سے زیادہ رقم بطورِ اڈوانس بذریعہ چیکس ادا کی تھی۔ میں نے یہ اراضی2021ء میں خریدی تھی اور بعد میں کامپلکس کی تعمیر کی۔
اس شخص نے بعد میں عدالت میں بیع نامہ کو منسوخ کرنے کا دعویٰ بھی کیا اور مجھے اس کی نقل اس کے وکیل نے روانہ کی۔ اس شخص کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ دعویٰ اندرونِ مدت کیا ہے اور یہ کہ میرے فروخت کنندہ کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنی زیر بار جائیداد کو تیسرے فریق کو فروخت کرتا۔ میں نے جائیداد خریدتے وقت اس کی اصل بیع نامہ کی نقل اور E.C دیکھا تھا جس میں اسی شخص کا نام آرہا تھا ۔ چونکہ بازاری قیمت سے کچھ کم قیمت پر جائیداد مل رہی تھی میں نے خریدلی۔
اس ضمن میں آپ سے رائے چاہتا ہوں کہ کیا میرے حق پر کیا گیا بیع نامہ عدالت منسوخ کردے گی۔ میرے ساتھ شدید دھوکہ ہوا۔ کیا میں اس شخص کے خلاف دھوکہ دہی کا مقدمہ دائر کرسکتا ہوں۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ شخص امریکہ چلا گیا اور اس کے واپس آنے کے امکانات موہوم ہیں۔
آپ سے اس ضمن میں مخلصانہ رائے کا طلبگار ہوں۔ فقط
(NRI) X-Y-Z حیدرآباد
جواب:- یہ مقدمہ شیشہ کی طرح شفاف ہے اور معاہدۂ بیع پر عمل آوری اور رجسٹرشدہ بیع نامہ کی تنسیخ کا مقدمہ دائر کرنے میں مدعی حق بجانب ہے۔ اس نے نوٹس اندرونِ میعاد جاری کی اور مقدمہ بھی اندرون میعاد داخل کیا جس کی بناء پر سیول کورٹ نے سمن جاری کیا۔
آپ نے یہ معاہدہ بزعم خود کیا تھا اور کسی بھی قانونی مشورہ کے حصول کو ضروری نہیں سمجھا تھا۔ نہ ہی آپ نے اس جائیداد کو خریدنے سے قبل کوئی قانونی نوٹس بہ عنوان اعلانِ خریدی شائع فرمانے کی زحمت گوارہ کی اور نہ ہی کسی قانون دان سے مشورہ طلب کرنا ضروری سمجھا۔
بادی النظر میں یہ مقدمہ مدعی کے حق میں جائے گا اور فیصلہ بھی اسی کے حق میں صادر ہوگا۔ اس سے کورٹ کہے گی کہ وہ معاہدہ کی مابقی رقم ادا کردے تاکہ رجسٹری عدالت کی جانب سے ہو۔ آپ کے حق میں کیا گیابیع نامہ منسوخ ہوگا اور شائد کچھ دنوں بعد وہ تمام آمدنی جو کرایہ کی شکل میں آپ کے پاس آرہی ہے ‘ عدالت میں جمع ہوگی۔
یہ آپ نے کیا غضب کیا۔ ساری زندگی کا اثاثہ برباد ہوگیا۔ یہ نقصان آپ کی غفلت و لاپرواہی اور خود اعتمادی سے مربوط ہے۔
یہ کیس ان حضرات کے لئے ایک سبق ثابت ہوگاجو جائیدادوں کی خرید میں قانونی رائے حاصل نہیں کرتے اور سب کچھ اپنے بل بوتے پر کرتے ہیں۔
سوال:- کچھ کاغذات کی نقولات روانہ کررہا ہوں۔ براہِ کرم بتائیے کہ اب کیا کیا جاسکتا ہے۔ فقط
XYZ حیدرآباد
جواب:- صبر ۔ شکر اور استغفار۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *