معاہدہ طلاقِ تفویض۔ کب اور کیسے؟

[]

شادی کے چند ماہ بعد جب شوہر بیوی میں اختلافات حد سے بڑھ جائیں اور شوہر کے والدین کا ظلم بھی بڑھ جائے تو لڑکی عام حالات میں گھر آکر بیٹھتی ہے ۔

پھر اس کے بعد دونوں فریقین کے والدین کچھ بزرگوں اورمحلہ کے اکابرین کے ساتھ مل کر مفاہمت کی بات کرتے ہیں۔

عام طور پر لڑکا اس بات کا وعدہ کرتا ہے وہ ظلم و ستم نہیں کرے گا اور جو کچھ بھی ہوا اس پر شرمندہ ہے۔ وہ وعدہ کرتا ہے کہ زائد جہیز کا مطالبہ نہیں کرے گا۔

یہ باتیں صرف زبانی ہی ہوتی ہیں اوراس زبانی عہد کی پابندی نہیں کی جاتی اور پھر دوبارہ شکایت کا موقع لڑکی کو ملتاہے۔

لہٰذا جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے تو اس طرز کا معاہدہ کیا جائے تو یہ احسن اقدام ہوگا۔ اس معاہدہ میں شوہر بیوی کو اختیار دے گا کہ کسی بھی ایسی حرکت کے سرزد ہونے کی صورت میں جو کہ اصولِ شرع اسلام کے خلاف ہو تو بیوی کو حق حاصل رہے گا کہ وہ خود کو اس معاہدہ کی اساس پر طلاق دے لے ۔

یا پھر دوسری صورت ایسی ہوسکتی ہے کہ شوہر کی جانب سے کسی بھی خلافِ اصولِ شرع کوئی حرکت سرزد ہو اور حالات بے قابو ہوجائیں تو شوہر کو ایک جامع قانونی نوٹس جاری کرتے ہوئے معاہدۂ طلاقِ تفویض کا مطالبہ کیاجائے بصورت دیگر سخت قانونی کارروائی مثلاً دفعہ498-A تعزیرات ہند ۔ دفعہ420 تعزیرات ہند ‘ قانونِ انسدادِ جہیز ‘ قانون گھریلو تشدد اور دفعہ125 ضابطۂ فوجداری یعنی حصول نفقہ کی کارروائی کرنے کی وارننگ دی جائے۔

ہمیں امید ہے کہ اس کوشش کا مثبت نتیجہ نکل آئے گا اور برسوں انتظار نہیں کرناپڑے گا۔ یہ اصول ایک بھولا ہوا قانون معلوم ہوتا ہے جو طاقِ نسیاں میں پڑا ہوا ہے۔ ہیرے پر اگر دھول پڑجائے تواس کی چمک دمک ختم نہیں ہوتی صرف دھول جھٹکنے کی ضرورت ہوتی ہے۔



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *