حماس قیدیوں کے تبادلے سے متعلق عرب فارمولے کی طرف بڑھ رہی ہے: ذرائع

[]

غزہ: قاہرہ میں العربیہ اور الحدث کے ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ غزہ میں حماس رہ نما یحییٰ السنوارمصر اور قطر کی طرف سے پیش کردہ قیدیوں کے تبادلے کے اقدام کو قبول کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس میں قیدیوں کے بدلے شہری قیدیوں کی رہائی اور 20 دن کی جنگ بندی کی شرط رکھی گئی ہے۔

العربیہ کی رپورٹ کے مطابق حماس کے ایک عہدیدارنے بتایا کہ باخبر ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ حماس کا ایک وفد جمعے کو قاہرہ روانہ ہوا تاکہ مصری اقدام پر بات چیت کی جا سکے جس کا مقصد غزہ میں جنگ کو ختم کرنا ہے۔

تاہم حماس کے ایک رہ نما نے حماس کے ایک وفد کے قاہرہ کے دورے کے بارے میں اٹھنے والی باتوں کی تردید کی ہے۔ محمود مرداوی نے کہا کہ “اس لمحے تک حماس کا کوئی وفد قاہرہ نہیں گیا۔ اس لیے اس میں بات کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ فی الحال حماس کے دورہ قاہرہ سے متعلق خبریں درست نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ “ہم تمام موضوعات پر بات چیت کے لیےتیارہیں اور ہم تمام فریقوں کے ساتھ بات کرتے ہیں، لیکن صحیح وقت پر اور صحیح فریق کے ساتھ ہر معاملے پر بات چیت ہوگی‘‘۔

حماس کے وفد کی قاہرہ آمد متوقع ہے۔ مصر کی طرف سے غزہ میں تین مراحل پر مشتمل جنگ بندی کا ایک فارمولہ پیش کیا گیا ہے جس میں قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں مرحلہ وار جنگ بندی کےساتھ ساتھ اسرائیلی فوج کا مرحلہ وار انخلاء بھی شامل ہے۔

مصری اقدام گذشتہ ہفتے حماس اور اسلامی جہاد کے عہدیداروں کے سامنے پیش کیا گیا۔ دونوں تحریکوں کے رہ نماؤں کے قاہرہ کے دوروں کے دوران اس پربات کرچکے ہیں مگرانہوں نے مستقل جنگ بندی سے قبل قیدیوں کے تبادلے اور غزہ کے اقتدار سے علاحدگی کو قبول نہیں کیا۔

اسلامی جہاد کےایک ذمہ دار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ متوقع تبادلے کی کارروائیوں کے طریقہ کار، رہا کیے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد اور غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلاء کی ضمانتیں حاصل کرنے سے متعلق ان کے خدشات پر بات کی جائے گی‘‘۔

دوسری طرف حماس کے ایک رہنما اسامہ حمدان نے کہا کہ ان کی جماعت آزادی کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک قومی اتھارٹی چاہتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیلی قیدیوں کو مستقل جنگ بندی کے نفاذ تک رہا نہیں کیا جائے گا۔

درایں اثناء اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے جمعرات کو تل ابیب میں قیدیوں کے اہل خانہ سے ملاقات کے دوران کہا کہ “ہم اس وقت (ثالثوں کے ساتھ) رابطے میں ہیں۔ میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کر سکتا۔ ہم پنے قیدیوں کو واپس کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ یہ ہمارا مقصد ہے‘‘۔

اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق حماس کے اچانک اور بے مثال حملے میں تقریباً 1,140 افراد ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ اسرائیل کے مطابق حملے کے دوران تقریباً 250 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 129 اب بھی غزہ میں زیر حراست ہیں۔

اس کے بعد سے اسرائیل نے محصور غزہ کی پٹی پر شدید بمباری شروع کی ہے۔ زمینی، فضائی اور سمندری اطراف سے کی جانے والی جارحیت میں اب تک 21,320 سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔



ہمیں فالو کریں


Google News

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *