[]
خورشید عالم داﺅد قاسمی
سات اکتوبر کے حملے کے بعد، اسرائیل کی قابض فوج نے غزہ کی پٹی پر فضائی حملہ شروع کیا اور پھر چند دنوں بعد، اس نے زمینی جنگ کا آغاز کیا۔ جنگ کے آغاز میں، اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے کہا تھا کہ اس کا مقصد ”حماس کا صفایا“ اور ”یرغمال بنائے گئے شہریوں کی رہائی“ ہے۔ مگر تقریباً ڈھائی مہینے سے جاری اس وحشیانہ کارروائی میں صہیونی قابض فوج اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ وہ غزہ کی پٹی کی اونچی اونچی عمارتوں، مہاجرین کے خیموں، اسپتالوں، اسکولوں، یونیورسیٹیوں، چرچوں کو زمین دوز کرنے میں کامیاب رہی۔ اپنی سفاکیت اور درندگی کا ثبوت دیتے ہوئے وہ بم، میزائل، مشین گن، آتشی اسلحے اور قسم قسم کے مہلک ہتھیاروں کا استعمال کرکے، 23/ دسمبر 2023 تک بیس ہزار 258 بے گناہ شہریوں کو قتل؛ ترپن ہزار 688 /لوگوں کو زخمی، دو تہائی شمالی غزہ کی عمارتوں کو زمین دوز اور غزہ کے مکینوں کو بے گھر کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس جنگ میں جو کچھ ہو رہا ہے، سارے فلسطینی اس کے عادی ہیں؛ کیوں کہ ایسا ان کے ساتھ ماضی میں بار بار ہوچکا ہے؛ مگرصہیورنی ریاست اس جنگ میں جو نقصان اٹھا رہی ہے، وہ اس کے لیے تکلیف کا باعث ہے؛ کیوں کہ وہ اس کی عادی نہیں ہے۔
جب سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے، اس دن سے بہت سے ممالک میں عام لوگ اسرائیلی فوج کی درندگی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ متعدد ممالک میں تو اتوار کا دن اسرائیلی حکومت کے خلاف مظاہرے کا معمول ہی بن گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی بدولت، عام لوگ بھی اسرائیلی فوج کی درندگی سے واقف ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں مظاہرین کا سیدھا نعرہ ہے: ”ناٹ مائی وار“ یعنی یہ ہماری جنگ نہیں ہے، پھر ہم کیوں اسرائیل کے ساتھ اس جنگ میں شامل ہوکر، اپنا نقصان کریں؟ بہت سے لوگ نتن یاہو کے غیر ذمہ دارانہ فیصلے کی وجہ سے صہیونی ریاست سے نفرت کرنے لگے ہیں، ان میں یہودی بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل جیسی ریاست کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ صہیونی ریاست میں بھی عام لوگ اس طرح سے ڈر وخوف کی زندگی جینا نہیں چاہتے؛ اس لیے وہ بھی اپنی حکومت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کے اہل خانہ ”تل ابیب“ میں مظاہرے کرکے اپنے غم وغصہ کا نتن یاہو کے خلاف اظہار کر رہے ہیں۔ اسرائیلی شہریوں کی ایک بڑی تعداد نتن یاہو سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ مستعفی ہوجائے۔ ان شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھوں نے سرکار کو جنگ کے لیے منتخب نہیں کیا ہے؛ بلکہ وہ امن سے رہنا چاہتے ہیں۔ بہت سے اسرائیلی شہری ”دو ریاستی حل کے نظریہ“ کی کھلے طور پر تائید کر رہے ہیں۔ اس جنگ کے پہلے دن سے اسرائیلی شہریوں میں بے چینی پائی جارہی ہے۔ جنگ کے آغاز سے اب تک تقریباً تین لاکھ دوہری شہریت کے حامل اسرائیلی شہری اسرائیل چھوڑ کر، ان ممالک میں جاچکے ہیں جہاں کی ان کو دوہری شہریت حاصل ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی شہریوں کی ایک بڑی تعداد دوہری شہریت رکھتی ہے۔ غزہ میں جو نقصان ہوا وہ ہوا، لیکن یہ جنگ مجموعی طور فلسطین کے حق جارہی ہے۔
فرانس جو ہمیشہ سے صہیونی ریاست کا معین ومددگار رہا ہے اور اسرائیل پر حملے کے بعد، اس کے صدر نے فوراً ”تل ابیب“ پہنج کر، اسرائیل کی حمایت کی تھی، اب صہیونی قابض فوج کی غزہ میں وحشیانہ کاروائی دیکھ کر، اس کے وزیر یہ کہہ رہے ہیں کہ دوہری شہریت کے حامل فرانسیسی فوجی جو غزہ میں جنگ میں شامل ہیں اور جنگی جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں، ان کی مذمت کی جانی چاہیے۔ صہیونی فوج جس طرح غزہ کے شہریوں پر بلا امتیاز بمباری کر رہی ہے کہ اب بائیڈن انتظامیہ کے لیے اسرائیل کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا ہے؛ چناں چہ صہیونی بائیڈن نے خود اب یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ اسرائیل بلاامتیاز بمباری کی وجہ سے عالمی حمایت کھو رہا ہے۔ یہ فلسطین کے لیے اچھی خبر ہے۔
ساؤتھ افریقہ ایک زمانے سے صہیونی ریاست اسرائیل کا ناقد رہا ہے۔ اس ملک نے ہر پلیٹ فارم پر اسرائیل کے ظلم و جبر اور اس کی وحشیانہ کارروائی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ساؤتھ افریقہ کی وزارت خارجہ نے حالیہ جنگ کے حوالے سے 18/ دسمبر 2023 کو یہ بیان جاری کیا کہ وزارت خارجہ کو اس خبر پر ”شدید تشویش“ ہے کہ جنوبی افریقہ کے کچھ شہری غزہ میں لڑنے کے لیے اسرائیلی دفاعی فوج میں شامل ہوئے ہیں یا ایسا کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اگر کوئی ساؤتھ افریقہ کا شہری قابض صہیونی فوج کے ساتھ مل کر، غزہ کی جنگ میں حصہ لیتا ہے؛ تو ساؤتھ افریقہ میں اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی، اس پر مقدمہ چلایا جائے گا اور اسے سخت سزا دی جائے گی؛ کیوں کہ جنوبی افریقہ کے صدر سیرل راماپھوسا نے ایک بار پھر اس جنگ کو ”نسل کشی“ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اس جنگ کا صہیونی ریاست کی اقتصادی حالت پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے تقریباً تین لاکھ ساٹھ ہزار اپنے ریزرو فوجیوں کو غزہ کے ارد گرد جمع کردیا ہے، جو مختلف پیشے سے جڑے لوگ ہیں۔ اب وہ بیٹھے ہوئے ہیں اور جہاں وہ کام کرتے ہیں، وہاں اپنی ذمے داریاں نبھانے سے قاصر ہیں؛ لہٰذا ان کی بھی آمدنی رک گئی ہے اور حکومت کو ان کا خرچہ بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اسرائیل کی اقتصادیات پر برا اثر پڑنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ”حزب اللہ“ شمالی اسرائیل میں تقریباً سات کلو میٹر تک اپنا میزائیل برسا رہا ہے۔ اس کے خوف سے، لبنان کی سرحد سے قریب شمالی اسرائیل کے تقریبا ًایک لاکھ شہری اپنے گھروں کو چھوڑ کر، خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جہاں ایک طرف ان کی معاشی سرگرمیاں ٹھپ پڑگئی ہیں، وہیں دوسری طرف ان کے کھانے پینے کا خرچ حکومت کے ذمے ہے۔ حماس کی طرف سے ہر روز اسرائیل کے شہروں پر میزائل پھینکا جا رہا ہے۔ گرچہ وہ اپنے ہدف پر پہنچے یا نہ پہنچے؛ لیکن اس کی وجہ سے لوگ باہر نکلنا چھوڑ رہے ہیں، اس کا اثر بھی اقتصادیات پر پڑ رہا ہے۔ ان دنوں اسرائیل میں سیاح بالکل نہیں پہنچ رہے ہیں، اس سے بھی وہاں کی اقتصادیات متاثر ہو رہی ہے۔ دوسری اقتصادی سرگرمیاں بھی اسرائیل میں تقریبا ٹھپ پڑچکی ہیں۔
قابض فوج نے 15/ دسمبر 2023 کو غزہ میں اپنے تین ایسے لوگوں کا قتل کردیا جنھیں حماس نے یرغمال بنایا تھا۔ ہوا یہ کہ وہ لوگ صہیونی فوج کو دیکھ کر، ان کی طرف بڑھے؛ مگر صہیونی فوج نے ان پر فائرنگ شروع کردی اور وہ سب وہیں قتل کردیے گئے۔ اب تک فلسطینی یہ کہہ رہے تھے کہ قابض فوج مزاحمت کاروں سے مقابلہ کے بجائے بالقصد شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے، تو صہیونی ذہنیت کے لوگوں کو اس پر یقین نہیں ہو رہا تھا؛ مگر اب قابض فوج کا اپنے یرغمال شہریوں کا قتل کرنا، اس بات کا بین ثبوت ہے کہ جس فلسطینی شہری پر بھی اس کی نظر پڑتی، اس پر وہ گولی چلا دیتی ہے۔ اس سے صہیونی ریاست اور قابض فوج کی درندگی کھل کر عام لوگوں کے سامنے آرہی ہے اور عوام اس کی درندگی سے واقف ہو رہے ہیں۔
مزاحمتی تنظیم حماس کے عسکری بازو نے جب سات اکتوبر کو حملہ کیا تھا؛ تو صہیونی ریاست اسرائیل اور اس کی قابض فوج ایک دن کے لیے لرزی تھی؛ لیکن زمینی جنگ کے شروع کرنے کے بعد سے، ان کو جس مقابلے کا سامنا ہے کہ قابض فوج ہر روز لرز رہی ہے۔ جس طرح ”القسام بریگیڈ“ کے مزاحمت کار ان سے مقابلہ کر رہے ہیں کہ اس کا ان کو گمان بھی نہیں رہا ہوگا۔ زمینی جنگ شروع ہونے کے پہلے دن سے ہی ہر روز دسیوں فوجی اور افسران مارے جارہے ہیں۔ فوج کی ایک بڑی تعداد زخمی ہوکر، اسپتال میں زیر علاج ہے۔ ان کے قیمتی ٹینک تباہ وبرباد کیے جارہے ہیں۔ تباہ شدہ ٹینک کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ کچھ ایسے بھی ٹینک ہیں، مثلا: “میر کاوا”، جس کی قیمت 35 لاکھ ڈالر ہے۔ قابض فوج کا غزہ میں گھسنا جتنا مشکل تھا، اس سے کہیں زیادہ مشکل ان کے لیے اب وہاں سے نکلنا ہے۔ صہیونی فضائی فوج نے بیدردی سے غزہ کی عمارتوں کو زمین دوز کردیا، اب ان کی بری فوج کو حماس کے مزاحمت کار انھیں عمارتوں کے ملبے سے چھپ کر نشانہ بناتے ہیں اور ان کے ٹینک تباہ کرتے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے جنگ کے آغاز میں کہا تھا کہ اس کا مقصد حماس کا صفایا اور یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کو حماس کی قید سے آزاد کرانا ہے۔ اسرائیل اپنے مقاصد کے حصول میں اب تک ناکام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نتن یاہو یرغمال شہریوں کی رہائی میں ناکام رہے؛ تو اپنے نمائندوں کو قطر کی ثالثی میں، یرغمالوں کی رہائی کے لیے حماس کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھیجا۔ پھر معاہدے کے مطابق عارضی طور پر تقریباً سات دنوں کے لیے جنگ بند رہی، غزہ میں امدادی سامان کے جانے کی اجازت دینی پڑی، مزید یہ کہ فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرنا پڑا اور ہر تین فلسطینی قیدیوں کے بدلے ایک یرغمال اسرائیلی شہری کو رہا کیا گیا۔ پھر دوبارہ جنگ شروع ہوگئی۔ اب بھی اسرائیل غزہ میں زمینی آپریشن کر رہا ہے، مگر قابض فوج اب تک باقی یرغمال شہریوں کو آزاد نہیں کراسکی۔ یہ اس کی ناکامی ہے۔
صہیونی ریاست اسرائیل کی یہ سوچ تھی کہ ہفتہ دس دن میں غزہ پر قبضہ کرکے حماس کا صفایا کردیں گے، مگر ڈھائی مہینے کی طویل مدت میں بھی ایسا تو نہیں ہوسکا اور نہ اس طرح کی کوئی امید لگ رہی ہے؛ بلکہ اسے حماس کی طرف سے ایسے مقابلے کا سامنا ہے، جس کے بارے میں اسرائیلی قابض فوج نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کرلیا ہے، لیکن ابھی بھی غزہ ان کے کنٹرول سے باہر ہے۔ القسام بریگیڈ کے اسنائپرز ان عمارتوں کے ملبے کو ”اسنائپرز نیسٹ“ کے طور پر استعمال کرکے، حملے کر رہے ہیں، جن عمارتوں کو اسرائیلی فضائی فوج نے زمین دوز کیا ہے۔ صہیونی فوج کے سینئر آفیسرز اتنی تعداد میں مارے جا رہے ہیں کہ جونیر آفیسرز کو میدان جنگ میں ترقی دے کر، اعلیٰ عہدے پر فائز کیا جارہا ہے۔ نہ ان کو تجربہ اور نہ ہی غزہ کی گلیوں سے واقفیت؛ اس لیے ایسا لگ رہا ہے کہ آئندہ دنوں میں اسرائیل کو مزید جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
گولانی بریگیڈ کو اسرئیلی فوج کا سب سے بہترین تربیت یافتہ حصہ مانا جاتا ہے۔ جب غزہ کے خلاف زمینی جنگ شروع ہوئی؛ تو اس کی قیادت گولانی بریگیڈ ہی کر رہی تھی۔ اس بریگیڈ کو بروز: جمعرات، 22/ دسمبر 2023 کی شام کو غزہ کی پٹی سے واپس بلا لیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گولانی بریگیڈ نے اپنے متعددآفیسرز کھوچکی ہے۔ اب مزید نقصان اٹھانا نہیں چاہتی۔ گولانی بریگیڈ کے سابق کمانڈر موشے کاپلنسکی نے اسرائیل چینل 12 کے ساتھ انٹرویو میں یہ اعتراف کیا کہ ”آپریشن طوفان الاقصیٰ اور اس کے نتیجے میں غزہ میں زمینی جنگ کے آغاز کے بعد سے بریگیڈ اپنی لڑاکا افواج کا ایک چوتھائی حصہ کھو چکی ہے۔ گولانی بریگیڈ کو بھاری جانی نقصان پہنچا ہے۔ اس بریگیڈ کے کم از کم 82 فوجی اور افسران مارے جاچکے ہیں۔گولانی بریگیڈ نے پہلے دن ہی جنگ کا آغاز کیا تھا، اس کے 72 فوجی مارے گئے تھے۔ بریگیڈ کی تیرہویں بٹالین نے سات اکتوبر کو لڑائیوں کے دوران 41 سپاہیوں اور افسروں کو کھو دیا۔“ اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ حماس کا صفایا کریں گے۔ اسرائیل نے اب تک تقریباً تین ہزار قسام بریگیڈ کے مزاحمت کاروں کو مارنے کا دعویٰ کیا ہے؛ جب کہ ان کے پاس تقریباً چالیس ہزار مزاحمت کار ہیں اور وہ اب تک میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صہیونی ریاست کی قابض فوج حماس کا صفایا تو نہیں کرسکی؛ مگر ”القسام بریگیڈ“ نے ”گولانی بریگیڈ“ کا صفایا کردیا۔
٭٭٭