بھگوا ڈوپٹہ والی مسلم خاتون کو بھائیوں نے بہن کو گھر سے نکال دیا

[]

کانپور: اترپردیش کے کانپور کی ایک مسلم خاتون کو نقاب پر زعفرانی ڈوپٹہ اوڑھنے پر اس کے گھر والوں اور برادری کی طرف سے ہراسانی کا سامنا ہے۔ خاتون نے جو بھگوا ڈوپٹہ اوڑھ کر پولیس کمشنر کے دفتر گئی تھی‘ میڈیا نمائندوں سے کہا کہ میں ہراسانی اور جائیداد کے جھگڑے کے تعلق سے شکایت کرنے چیف منسٹر سے ملنے گئی تھی۔

 تاہم کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ اب میں ہندو ہوگئی ہوں لہٰذا ازروئے شریعت مجھے کوئی مدد نہیں مل سکتی۔ مولاگنج علاقہ کی رہنے والی اس عورت نے 23 دسمبر کو چیف منسٹر کو اپنی بپتا سنائی۔ اس نے اس وقت بھگوا ڈوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔ اس نے چیف منسٹر کو بتایا کہ جائیداد کے جھگڑے کی وجہ سے اس کے بھائی اسے گھر سے نکال دینا چاہتے ہیں۔

 2022 میں اس نے حکام سے شکایت کی تھی۔ بعدازاں یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کے بعد پولیس حرکت میں آئی۔ چیف منسٹر سے ملاقات کی اس کی تصویر وائرل ہونے سے اس کے لئے مسائل پیدا ہوگئے۔ اس کے بھائیوں نے اسے کھانا پانی دینا بند کردیا۔

 اس کا سارا سامان یہاں تک کہ سوئٹر اور بلانکٹس تک چھین لئے۔ کڑاکے کی سردی میں صرف ڈوپٹہ کے ساتھ اسے اس کے حال پر چھوڑدیا گیا۔ بھگوا ڈوپٹہ کی وجہ سے اس کا مذاق اڑایا گیا۔ اس کے بھائیوں نے اسے گھر سے باہر نکال دیا۔ وہ اب اپنی ماں کے ساتھ رہ رہی ہے۔

بھائیوں نے باپ کی ساری جائیداد‘ نقد رقم‘ زیورات سب اپنے قبضہ میں کرلئے۔ شہر کے عالم ِ دین حاجی عبدالقدوس نے ابتدا میں اس کی مدد کا وعدہ کیا تھا تاہم بعد میں جب وہ ملنے گئی تو انہوں نے اس سے کہا کہ وہ بھگوا ڈوپٹہ کے ساتھ چیف منسٹر سے ملنے کے بعد ہندو ہوگئی ہے۔

 انہوں نے اسے ڈانٹا اور وہاں سے دھکے مارکر نکال دیا۔ بھائیوں سے ملنے والی معمولی امداد بھی بند ہوگئی۔ اسے اس کے دونوں بھائیوں سے فی کس 3 ہزار اور 2 ہزارروپے ملنے تھے۔۔ کھانا پانی اور کپڑے جیسی بنیادی ضروریات کی تکمیل اس کے علاوہ تھی۔

جمعیت علمائے ہند کے قومی صدر مولانا ارشد مدنی سے جب اس نے ملاقات کی تو انہوں نے اسے وہاں سے بھگادیا۔ انہوں نے کہا کہ مقامی علماء مسئلہ حل کریں گے کیونکہ یہ مقامی مسئلہ ہے۔ اسی دوران عالم ِ دین حاجی عبدالقدوس نے کہا کہ ان پر الزام بے بنیاد ہے۔ انہوں نے سوال کیاکہ  میں اس عورت کو چیف منسٹر سے ملنے سے روکنے کی سوچ بھی کیسے سکتا ہوں۔





[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *