بھارت: کروڑوں خواتین ویڈیو گیمرز آن لائن ہراسانی کا شکار

[]

خواتین کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ اکثر مرد گیمرز آن لائن اسٹریمنگ کے دوران ان سے پرائیوٹ باڈی پارٹس دکھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خواتین اور مرد ویڈیو گیمرز کی آمدنیوں میں بھی واضح فرق ہے۔

بھارت: کروڑوں خواتین ویڈیو گیمرز آن لائن ہراسانی کا شکار
بھارت: کروڑوں خواتین ویڈیو گیمرز آن لائن ہراسانی کا شکار
user

Dw

ایک تیرہ سالہ بھارتی گیمر ثنا (فرضی نام) کے مطابق کہ وہ کووڈ انیس کےوبائی مرض کے دوران آن لائن گیمنگ سے متعارف ہوئی تھیں۔ اس طالبہ کا کہنا ہے، ”ہر ایک کو آن لائن کلاسز لینی پڑیں اور اس سے وہ اپنے فونز کے قریب آ گئے، جس کا مطلب زیادہ سوشل میڈیا اور گیمنگ تھا۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔‘‘

بھارت میں آن لائن گیمنگ انڈسٹری حالیہ برسوں میں عروج پر ہے۔ گیمنگ پر مرکوز وینچر کیپیٹلسٹ فنڈ لومیکائی ور ایمیزون ویب سروسز کی طرف سے جاری کی گئی اسٹیٹ آف انڈیا گیمنگ رپورٹ 2022 ء کے مطابق بھارت میں اس وقت 507 ملین گیمرز ہیں۔

اور ملک کی بڑی نوجوان آبادی کو دیکھتے ہوئے، ڈیجیٹل گیمنگ میں آنے والے بھارتیوں کی تعداد میں سالانہ بارہ فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کے ایک اعشاریہ چار ارب افراد میں سے تقریباً 27.3 فیصد کی عمریں پندرہ سے انیتس سال کے درمیان ہیں۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں تقریباً 43 فیصد گیمرز خواتین ہیں۔ یہ خواتین اور لڑکیاں ہر ہفتے اوسطاً 11.2 گھنٹے جبکہ مرد 10.2 گھنٹے گیم کھیلنے میں گزارتے ہیں۔

اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ تک رسائی سےگیمنگ کا فروغ

اسمارٹ فونز، انٹرنیٹ تک سستی اور وسیع رسائی موبائل گیمز کوبھارتی عوام کے قریب لائی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی شہریوں نے گزشتہ سال کسی بھی دوسرے ملک کے لوگوں کے مقابلے میں موبائل گیمز تک زیادہ رسائی حاصل کی۔ اس دوران مجموعی طور پر مختلف گیمز کو 15 بلین مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا گیا۔

بھارت کے سب سے مشہور آن لائن گیمرز میں سے ایک اور ”شاؤٹ کاسٹر‘‘ یا مختلف گیمنگ ٹورنامنٹس کے اینکر زیرہ گونسالویس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” صارفین کی تعداد عروج پر پہنچ گئی ہے۔ لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ وہ آن لائن رابطہ کر سکتے ہیں، وقت گزار سکتے ہیں اور گھر بیٹھے پیسے بھی کما سکتے ہیں۔‘‘ بھارتی گیمنگ انڈسٹری نے 2022ء میں ڈیڑھ بلین ڈالرکی کمائی کی اور 2025ء تک اس کا حجم پانچ بلین ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔

خواتین کھلاڑی بدسلوکی کا شکار

خوشوین سنگھ نے اسکول میں گیمنگ شروع کی اور وہ سولہ سال سے زیادہ عرصے سے ایک فعال کھلاڑی ہے۔ انہوں نے کہا، ”مجھے اور میری والدہ کو بہت زیادہ گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور میں نے بچپن میں گیمنگ کے ذریعے ڈپریشن کا مقابلہ کیا۔ میرے لیے یہ ہمیشہ سے تھیراپی کی طرح رہی ہے۔‘‘ لیکن بہت سی خواتین گیمرز کو آن لائن بدسلوکی اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سنگھ نے کہا کہ گیمنگ انڈسٹری میں خواتین کے ساتھ ہمیشہ لڑکوں کے مقابلے میں کمتر سلوک کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا، ”اگرچہ ہم ان سے بہتر کھلاڑی ہیں لیکن کئی بار لڑکے ہمیں فون کر کے کہتے ہیں کہ گیمنگ کے بجائے کچن میں کام کریں۔‘‘

سنگھ نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ بعض اوقات اگر خواتین کھیلتے ہوئے ویڈیو اسٹریمنگ کر رہی ہوں تو ان کے بقول،”لڑکے بے شرمی سے ہم سے پرائیویٹ پارٹس دکھانے کے لیے کہتے ہیں اور ہمارے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔ ایسا تقریباً ہر لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘

آمدنی میں تفاوت

بدسلوکی کے علاوہ، جب آن لائن کھیلوں میں انعامی رقم اور برانڈ اسپانسرشپ کی بات آتی ہے تو خواتین گیمرز کو بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس سے مراد مسابقتی گیمنگ ہے، جہاں کھلاڑی اسپانسر شپ ڈیل جیتنے کے ساتھ ساتھ عالمی ٹورنامنٹس میں کھیلتے ہیں۔

اسپورٹس فیڈریشن آف انڈیا کے مطابق خواتین ایک ٹورنامنٹ میں تقریباً 1,200 ڈالرتک جیت سکتی ہیں، جب کہ مرد کھلاڑیوں کے غلبے والے اوپن ٹورنامنٹس میں خواتین کے مقابلے میں ایک سو گنا بڑے انعامات پیش کیے جاتے ہیں۔

گیمنگ کا ماحول بہتر بنانے کے لیے نئے اصول

بھارتی حکومت نے اپریل میں گیمنگ کی صنعت کو معیاری بنانے اور آن لائن گیمرز کو نقصان دہ مواد اور لت سے بچانے کے لیے نئے ضوابط کا بھی اعلان کیا۔ ای اسپورٹس پلیئرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی سربراہ شیوانی جھا نے کہا کہ گیمنگ کمپنیاں اب ”سیلف ریگولیٹری باڈیز‘‘ قائم کر رہی ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”حکومت کی طرف سے تجویز کردہ نئے قوانین کے ایک حصے کے طور پرکوئی بھی بد سلوکی کی شکایت کر سکتا ہے اور فحاشی کی اطلاع 24 گھنٹوں کے اندر اندر دی جا سکتی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔




[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *