جنگ غزہ، مقاومت اور استکبار کی جنگ میں یمن کا وزن بھاری

[]

مہر خبررساں ایجنسی،بین الاقوامی ڈیسک؛ طوفان الاقصی اور اس کے بعد صہیونی حکومت کے وحشیانہ حملے مقاومتی تنظیموں کے لئے بڑا امتحان کی حیثیت رکھتے ہیں کہ باہمی اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ مقاومت کے جوابی حملوں سے مغربی ممالک کو اندازہ ہوگیا کہ ان کے خلاف لبنان، عراق، فلسطین اور یمن سے محاذ کھل گئے ہیں۔ بنابراین مقاومتی تنظیموں کے درمیان ایجاد ہونے والی ہماہنگی طوفان الاقصی کی اہم ترین کامیابی ہے۔

صہیونی حکومت کو فلسطین میں القسام کے حملوں کے ساتھ مشرق سے عراق اور شمال سے شام اور لبنان کے گروہوں کے حملوں کا سامنا ہے چنانچہ چند روز پہلے حزب اللہ نے صہیونیوں کے دو اجتماعات کو نشانہ بناکر بعض فوجی ٹھکانوں کو بھی تباہ کردیا ہے۔

ان تمام حقائق کے باوجود یمن کے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے انصاراللہ کا خطرہ سب سے سنگین ہے جس نے کشتیوں کو قبضے میں لینے کے ساتھ میزائل اور ڈرون طیاروں سے حملہ کرکے نتن یاہو کی ناکامی کا سامان مہیا کردیا ہے۔

گذشتہ ہفتوں کے دوران یمن کے ہاتھوں صہیونی کشتیوں کو قبضے میں لینے کی خبر عالمی ذرائع ابلاغ میں شہہ سرخی بن گئی ہے۔ یمنی فوج نے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں پر مظالم کے جواب میں اسرائیلی کشتیوں کو اپنے قبضے میں لیا ہے۔ یمن کے اس قبضے کے بعد بین الاقوامی مخصوصا تیل کی کشتیوں کی سیکورٹی کے حوالے کافی بحث شروع ہوگئی ہے۔

یمنی مسلح افواج نے ایک بیان میں تاکید کی کہ بحیرہ احمر سے گزرنے والی اسرائیلی کشتیاں ان کے خصوصی اہداف ہوں گی۔

ایک ہفتے سے کم مدت میں دوسری کشتی پر قبضے کی خبر بازگشت کرنے لگی۔ یدیعوت احارونوت کے مطابق اسرائیلی کمپنی کی زیرملکیت کشتی سینٹرل پارک پر 22 افراد سوار تھے، جس کو قبضے میں لیا گیا ہے۔

یمنی فوج کا انتباہ اس قدر سخت تھا کہ صہیونی کشتی کی حفاظت پر مامور امریکی فوجی کشتی یو ایس ایس میسن پر دو میزائل حملے کئے گئے۔

اسرائیل اور اس کے مغربی حامیوں نے ابتدائی مرحلے میں اس حملے کی تردید کرنے کے علاوہ کشتی کی ملکیت سے بھی انکار کیا کیونکہ اچانک ہونے والے حملے سے حواس باختہ صہیونیوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں تھا البتہ صہیونی حکومت نے رسوائی کو کم کرنے کے لئے حسب سابق ایران پر اس کا الزام لگایا۔

مبصرین کے مطابق کاروائی کے بارے میں غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حملہ یمنی فوج نے کیا ہے جو جب دھمکی دیتی ہے تو ذمہ داری بھی قبول کرتی ہے۔ اس طرح یمن کی طرف سے امریکہ اور اسرائیل کو درپیش خطرات عالمی توجہ کا مرکز بن گئے علاوہ ازین یمنی وزیراعظم کے دفاعی معاون جلال الرویشان اور سیاسی کونسل کے رکن محمد علی الحوثی کے بیانات نے تمام شکوک دور کردئے جنہوں نے واضح کیا کہ فلسطینیوں کے خلاف حملے رکنے کی صورت میں ہی کشتیوں کو چھوڑنے کے بارے میں مذاکرات ہوسکتے ہیں۔

آبنائے باب المندب سمندر کے راستے مشرق کو مغرب سے ملانے والا وہ تنگ سمندری راستہ ہے جو یمن کے مغرب میں واقع ہے۔ اس جگہ سے روزانہ 60 لاکھ بیرل خام تیل گزرتا ہے اسی طرح قدرتی گیس کی 30 فیصد تجارت اسی گزرگاہ سے ہوتی ہے علاوہ ازین عالمی سمندری تجارت کا دس فیصد یمن کے قبضے والے اسی راستے سے ہوکر گزرتا ہے۔

آبنائے مالاکا اور آبنائے ہرمز کے بعد یہ تیسرا مقام ہے جہاں سے عالمی تیل کی تجارت کا مجموعی طور پر 4 فیصد گزرنے کا راستہ فراہم کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے 1973 میں بھی اس جگہ کو صہیونی حکومت کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

باب المندب کی اس اہمیت کی وجہ سے یمنی حکام نے دھمکی دی ہے کہ اسرائیل اور اس کے ساتھ رابطہ رکھنے والوں کی کشتیاں ہمارے حملوں کا شکار ہوں گی۔ اس دھمکی کے فورا بعد عملدرامد بھی شروع ہوا ہے۔ باب المندب صہیونی حکومت کے لئے موت اور زندگی کا مسئلہ ہے۔ صہیونی کشتیاں اس مقام سے گزر کر بحیرہ احمر میں داخل ہوتی ہیں اس کے بعد حیفا اور ایلات کی بندرگاہوں پر لنگرانداز ہوتی ہیں۔

صہیونی کشتیاں سوڈان اور صومالیہ کی سرحدوں سے دور حرکت کرسکتی ہیں کیونکہ سمندر وسیع ہے لیکن یمن کے نزدیک پہنچنے کے بعد ایسا ممکن نہیں ہے۔ تنگ ترین مقام پر باب المندب کی چوڑائی صرف 25 کلومیٹر ہے جس سے صہیونی کشتیوں کے لئے یمن کی ساحل سے فاصلہ اختیار کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

یمنی فوج کی جانب سے قبضے میں لینے کی وجہ سے صہیونی حکومت اور کمپنیوں کو کئی گناہ زیادہ خسارہ ہوتا ہے۔

یمنی فوج کے عملی اقدمات سے بخوبی ظاہر ہوا ہے کہ یمن کی جانب سے درپیش خطرات سنجیدہ نوعیت کے ہیں اسی وجہ سے یمنی فوج کو خطے میں مقاومت کی صف میں اہم مقام مل گیا ہے اور اس کی کاروائیاں زبان زد عام ہیں۔ یمنی فوج نے میزائل اور ڈرون حملوں کے ذریعے خطے میں تعیینات امریکی فوجیوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے ساتھ نیٹو کے زیرحمایت ممالک کو بھی پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔

یمنی عوام نے دس سال تک جارحیت کا شکار ہونے کے بعد اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے جس سے خطے اور بین الاقوامی معاملات نیا رخ اختیار کرچکے ہیں۔ خطے میں مقاومت کے ذریعے رونما ہونے والی جیوپولٹیک تبدیلیوں کا یہ پہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *