[]
فہیم النساء مہوش
انسانی سوچ و فکر کےارتقاء میں کچھ عبقری شخصیتوں کا ایسا حصہ ہوتا ہے کہ نسلیں نا صرف انھیں یاد کرتی ہیں بلکہ ملک و قوم اور ملت کے تئیں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان ہی کے نظریہ اور ان کے کارناموں کو فروغ دے کر ترقی کی اسی بنیاد کو مضبوط کرتی ہیں جو بے شک ان باکمال شخصیات کی دور اندیشی اور وسیع النظری کی اعلیٰ مثال ہے کہ جنھوں نے اپنی فراست، تدبر اور تفکر سے آنے والے وقتوں کے سماجی، ثقافتی، تہذیبی، تقاضوں کو بھانپ لیا۔
بے شک یہ کوئی معمولی صفات نہیں بلکہ اللہ تعالی کی پیدا کردہ بہت ہی خاص شخصیتیں ہیں جو ہبیسویں صدی کے وہ روشن مینار ہیں جنھوں نے تعلیمی نظام یا پھر تعلیمی ڈھانچے کی ساخت کو مستحکم بنانے کے علاوہ روایتی طریقے سے عصری اور فنی سطح پر لانے کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔
بلا شبہ وہ سرسید احمد خان اور ہمارے آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد ہیں۔ تعلیمی نظام اور تعلیمی معیار کے فروغ کے لئے ان کی انتھک کوششوں کے اعزاز میں ان کے یوم پیدائش پر ہر سال قومی یوم تعلیم منایا جاتا ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد 11نومبر 1888 کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ چھوٹی سی عمر میں بلا کی قابلیت اور ذہانت کے حامل صرف 12 سال کی عمر میں مدیر بھی بن گئے۔ 1914 میں اخبار الہلال نکالا جو برطانوی حکومت کے خلاف ہندوستانیوں کے تحریک آزادی میں شامل ہونے کا باعث بنا۔ اس کے بعد البلاغ بھی شایع کیا۔ ترجمان القرآن بھی لکھا۔ وہ اپنی ذات میں ایک مکمل ادارہ تھے ۔
تدبر کا یہ عالم تھا بقول سروجنی نائیڈو کے آزاد جس دن پیدا ہوئے اسی دن پچاس برس کے ہوگئے۔ کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ 16سال کی عمر میں تعلیم مکمل کی۔ اپنے سے دگنی عمر کے بچوں کو پڑھایا بھی کرتے تھے۔ ان کی شخصیت کا احاطہ کرنا یکے بعد دیگرے وضاحت کے ساتھ تو یہ دقت ضرور ہوتی ہے کہ ان کی کونسی کونسی صفات پر بات کی جائے کیونکہ مفکر، صحافی، ادیب، شاعر، فلسفی، مصلح، خطیب سیاستدان، محقق، دانشور، ماہر تعلیمات اور ایک بہترین لیڈر بھی تھے۔ کم عمری میں پارٹی کے صدر بھی بنائے گئے۔
مولانا ابوالکلام آزاد بحیثیت وزیر تعلیم اس نظریہ کے شدت پسندی کے ساتھ حامل تھے کہ تعلیم سےجمہوری اقدار کو فروغ دیا جائے۔ ان ہی کی کوششوں کے ثمر آور نتائج ہیں کہ ہندوستان نے صرف تعلیم کی اہمیت سمجھی بلکہ فنون تعلیم کی اہمیت بھی جانی۔ وہ نصاب میں رواداری، ترقی، بھائی چارگی جیسے اقدار کو فروغ دینا چاہتے تھے۔ وہ تعلیم میں سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک سے کافی متاثر تھے۔ 15اگست 1947سے 1958تک پہلے وزیر تعلیم رہے۔
تعلیمی نظام کو عالمگیریت کا یہ پہلو انھوں نے ہی پیش کیا کہ تعلیم بلا لحاظ صنفی امتیاز سکنڈری گریڈ تک مفت اور لازمی فراہم کی جائے اور NEP کا کثیر لسانی فارمولہ انھوں نے ہی آزاد ہندوستان کو دیا تھا اور علاقائی مادری زبان میں تعلیم کی پر زور تائید کی تاکہ ہر بچہ اپنے قومی اور ثقافتی ورثے کا تحفظ بھی کرسکے اور اپنے تئیں قوم کی خدمت بھی انجام دے سکے۔
تعلیم کی جن بنیادوں کو آزاد نے رکھا، اس کی مضبوطی نے ہندوستان کو روایتی تعلیم سے ہٹ کر جدید تعلیمی افکار کو اپنانے میں پیش قدمی فراہم کی۔ ان کا ماننا تھا کہ تعلیم ہی ترقی کا سر چشمہ ہے اور تعلیم ایسی ہو جو تحقیق، تخلیق اور اخلاقیات کے ساتھ لیڈر شپ صلاحیتوں کے فروغ میں معاون و مددگار ہو اور آج ان خصوصیات کے فروغ پر کئی تعلیمی اسکیمیں لانچ کی جارہی ہیں اور اساتزہ کو تربیت فراہم کی جارہی ہے۔
لسانی طور پر جس طرح ہمارا ملک پسماندہ تھا، آزاد نے اسی طرف توجہ مبذول کرکے اس لسانی انحطاط کو دور کرنے کے لئے ماہرین تعلیمات کو اپنی رائے دی۔ آزاد چاہتے تھے کہ آزاد ہندوستان بلاتفریق مذہب وملت، رنگ ونسل ذات پات کے اقتصادی طور پر کامیاب رہے اور خود کفیل، پرامن، منظم اور مساوات کا اور بھائی چارگی کا علمبردار بنے۔
آزاد کے اسی نظریہ کا اظہار ہے کہ انھوں نے کہا تھا کہ ’’اگر آسمان سے ایک فرشتہ اترے اور کہے میں تمیں 24گھنٹوں میں سوراج دوں گا اگر تم ہندو۔مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجاؤ تو میں کہوں گا کہ مجھے ہندو مسلم اتحاد چاہئے کیونکہ اگر سوراج نہیں ملا تو ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر اتحاد جاتا رہا تو عالم انسانیت کا نقصان ہوگا۔‘‘
بحیثیت وزیر تعلیم ان کی کارکردگی نصاب میں قومی یکجہتی کے فروغ پر تھی اور ترقی پسند نصاب کی ترجیح تھی ۔ وہ تعلیم میں صنعت وحرفت کو ترقی کے لئے لازم سمجھتے تھے اور پیشہ وارانہ تعلیم کو انتہائی ضروری سمجھتے تھے۔
1948 میں انھوں نے یونیورسٹی سطح پر عصری تعلیم کے فروغ کے لئے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن قائم کیا تاکہ ہندوستان بدلتے وقت کے تقاضوں کے ساتھ عصری تعلیم میں ترقی کی جانب گامزن ہو۔ 1952میں انھوں نے آل انڈیا کونسل فار سکنڈری ایجوکیشن قائم کیا۔
ادبی ثقافتی اور علمی اداروں کے قیام میں انھوں نے ادب اور ثقافت کے فروغ کا خیال کرتے ہوئے ساہتیہ اکیڈمی، للت کلا اکیڈیمی اور کونسل فار کلچرل ریلیشنز کو قائم کیا جو آج بہت ہی کامیابی و ترقی کا مظہر ہیں۔ ہندوستان میں تعلیمی میدان میں وسیع تبدیلیاں اور ترقی مولانا ابوالکلام آزاد کے زمانے میں ہی رونما ہوئیں۔ 14سال مفت اور لازمی پرائمری ایجوکیشن کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا۔ وہ کہتے تھے کہ قوم کا سرمایہ کسی بھی ملک کے بینکوں میں نہیں بلکہ پرائمری اسکولوں میں ہے۔
ان کا ماننا تھا کہ تعلیم جو دل سے دی جائے تو سماج میں انقلاب لاسکتی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے تعلیم بالغان کو متعارف کرایا۔
بطور وزیر تعلیم ان کا یہ ماننا تھا کہ یونین اور ریاستوں کو تعلیم کے فروغ میں ذمے داریاں بانٹنی چاہئیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے تدبر اور فراست سے تعلیم کو ناصرف ملک کی سالمیت کے اشد ضروری قراردیا بلکہ معاشی صورتحال کی تبدیلی کو تعلیم کا لازمی جز قرار دیا- وہ تعلیم کے سماجی و اخلاقی طرز پر مبنی فکر کو فروغ دینا چاہتے تھے۔
پہلا آئی آئی ٹی، پہلا آئی آئی ایس سی، اسکول آف پلاننگ اینڈ آرکیٹیکچر بھی انھیں کے دور میں قائم ہوا۔ آزاد نے جدید سائنس وٹیکنالوجی کے ساتھ ہندوستان کی ثقافت کی سفارش کی۔ اپنے ملک سے بے انتہا محبت کا تقاضہ تھا کہ وہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت دوسرے ملکوں میں بھی پہنچانا چاہتے تھے۔
لبرل ازم اور روشن خیالی کا پیکر آزاد نے ایک تقلیدی وزیر تعلیم بن کر ہندوستان کی مستقبل کی تعلیمی ضرورتوں کے لحاظ سے جو بھی کارہائےخدمات انجام دیں، اس کا ثمر آور سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے۔ ایک بات جو آج ہر شہری کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ آزاد نے چاہے بحیثیت وزیر تعلیم یا بحیثیت صحافی یا شاعر ادیب، سیاستدان، یا فلسفی یا مصنف جس فکر کو سب میں قائم رکھا وہ مساوات، یکجہتی اور انسانیت کا فروغ ہے، حب الوطنی کا فروغ ہے۔
اگر مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی بصیرت کا احاطہ کرنا چاہیں تو ملک کے پہلے وزیراعظم کا یہ بیان کافی ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو رقمطراز ہیں کہ:
’’میں صرف عملی سیاست ہی نہیں جانتا، سیاست کا طالب علم بھی ہوں۔ علم سیاست کی کتابیں مجھ سے زیادہ ہندوستان میں کسی اور نے نہیں پڑھیں۔ میں تیسرے چوتھے سال یورپ کا بھی دورہ کرتا ہوں جہاں سیاست کا قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے سیاست کے تازہ ترین علم سے واقفیت حاصل کرلی ہے لیکن جب ہندوستان واپس پہنچ کر مولانا ابوالکلام آزاد سے باتیں کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اب بھی بہت آگے ہیں۔‘‘ (ابوالکلام آزاد: ایک ہمہ گیر شخصیت، رشید الدین خاں)
اگر مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب ان کے خطوط کا مجموعہ غبار خاطر کا ذکر نا کیا جائے تو اس مضمون کی تشنگی باقی رہ جائے۔ ویسے تو ان کے خطوط کے کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں جیسے تبرکات آزاد، کاروان خیال، مکاتب ابوالکلام اورغبار خاطر جو سب سے زیادہ ان کی طرز نگارش کے لئے شہرت یافتہ ہیں۔ جس میں انھوں نے ایک بہت بڑی شخصیت حبیب الرحمان شیروانی کی مخاطبت میں لکھا۔ قید میں انہوں نے اپنے خیالات ا ور تاثرات کو اپنے عزیز سے مخاطب ہوئے ہوئے قلمبند کردیا۔
غبار خاطر جو نثر کا عظیم شاہکار ہے ہر ادب نواز کے مطالعے کی پہلی جستجو ہے۔ غبار خاطر کے اسلوب سے متاثر ہوکر ہی حسرت موہانی نے لکھا:
جب سے دیکھی ابو الکلام کی نثر
نظم حسرت میں بھی مزہ نا رہا
کئی اسکالرس نے ان کی سیاسی، اسلامی اور تعلیمی شراکت پر ان کی علمی ذہانت پر لکھا اور تعلیم اور ثقافت میں ان کی بے پناہ کاوشوں اور شراکت داری کا اعتراف کیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے غبار خاطر میں تعلیمی فلسفہ پر تبصرہ کیا۔ آزادی کے بعد بلاشبہ نئے قومی تعلیمی نظام کو ملک کے تناظر میں تعمیر کرنا بہت مشکل اور پیچیدہ کام تھا لیکن مولانا ابوالکلام آزاد نے اس ذمے داری کو بخوبی نبھایا بھی اور انمٹ نقوش بھی چھوڑے۔
اس پیغام کے ساتھ کہ تعلیم کو ہر ضرورت پر فوقیت دی جائے۔ ان کا یوم پیدائش منانا اس بات کا عزم ہو کہ بھلے ہی ایسی شخصیت کا دوبارہ پیدا ہونا مشکل ہے لیکن ان جیسی شخصیت کی سوچ کی بنیاد ڈالنا اور ان کے نظریہ کو فروغ دینا، اساتذہ پر ان کی تدریس پر بقول ابوالکلام آزاد کے ’’دل سے تعلیم‘‘ پر ممکن ضرور ہے۔ آج معاشرہ جس پسماندگی سے ابھرنے کی کوشش میں لگا ہے اس کے لئے ضروری ہے یہ جاننا کہ تعلیم سے نا صرف اپنا بلکہ ملت کا قوم کا ملک کا فائدہ ہوتا ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے جس طرح اپنی کاوشوں سے اپنی خدمات آنے والے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے باوجود قیدوبند کی صعوبتوں سے دوچار ہوتے ہوئے جاری رکھیں، اسے یاد کرتے ہوئے اپنے عزائم کو نئے سرے سے ترتیب دیتے ہوئے کوششوں کو جاری رکھنا چاہئے۔ کیونکہ جس ملک میں ایسے معمار قوم ملک و ملت ہوں ان کی عزت اور ان کے مقام کا اعتراف کرتے ہوئے ہمیں خود کو ثابت کرنا ہوگا لیکن اس کے لئے ہمیں تعلیم کے ہر شعبے میں خود کو منوانا ہوگا۔
یہ باور کرانا ہوگا کہ ہم نے ان رہنماؤں کی قندیل سے تاریک راہوں میں روشنی حاصل کی جنھوں نے اپنی محنت لگن ایثار اور اپنے نظریات کو خون کی شکل میں جلائے رکھا تاکہ تاریکی میں کوئی ڈوب نا جائے۔
وقت کے اس تقاضے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی کہ مولانا ابوالکلام آزاد تعلیم میں تخلیق، تحقیق، استدلال، تکنیک اور اقدار کا فروغ چاہتے تھے۔ قوموں کا انحصار تعلیم اور اساتذہ پر ہی ہوتا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے بقول تعلیم سے انسانیت کا فروغ ہو اور انسانی زندگی ترقی یافتہ ہو۔ ہمیں یہی تعلیم کے جامع اور لازمی مفہوم کو اپنی زندگیوں سے مربوط کرنا ہوگا۔