اسرائیلی فوج کے ساتھ جنرل پیٹریاس کی خفیہ ملاقات کی آڈیو فائل لیک+ آڈیو

[]

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی گروپ: مہر خبررساں ایجنسی نے غزہ جنگ کے بارے میں ایک انتہائی خفیہ آڈیو فائل حاصل کرلی ہے۔ اس خفیہ فائل میں امریکی فوج کے ریٹائرڈ جنرل “ڈیوڈ پیٹریاس” نے امریکی اور اسرائیلی سیاسی و عسکری تھنک ٹینکس کے درمیان ایک خفیہ ملاقات میں غزہ کے خلاف جنگ کا جائزہ لیتے ہوئے اسرائیل کی جیت کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔ 

اس خفیہ ملاقات میں اسرائیلی فوج کے سابق چیف آف جنرل اسٹاف ایوی کوخاوی بھی موجود ہیں۔

جنرل ڈیوڈ ہاویل پیٹریاس جو 7 نومبر 1952 کو پیدا ہوئے، سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سابق سربراہ اور امریکی فوج کے ریٹائرڈ جنرل ہیں۔ 

2011 میں فوج سے باضابطہ طور پر ریٹائر ہونے کے بعد، پیٹریاس کو سی آئی اے کا سربراہ مقرر کیا گیا اور 14 ماہ سی آئی اے کے سربراہ کے طور پر رہنے کے بعد، انہیں نومبر 2012 میں “غیر معمولی تعلقات اور اپنی بیوی کے ساتھ دھوکہ دہی” کی وجہ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔

 2001 اور 2002 میں، وہ بوسنیا اور ہرزیگوینا میں نیٹو کے سینئر کمانڈروں میں سے ایک تھے اور 2007 میں وہ عراق میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے فوجی دستوں کے انچارج تھے۔

یہ چار ستارہ جنرل جو امریکی فوج میں اعلیٰ ترین فوجی عہدے پر فائز ہیں، سی آئی اے کی سربراہی سے قبل مغربی ایشیا، مشرقی افریقہ اور وسطی ایشیا میں امریکی فوج کی کمان کے انچارج بھی تھے۔

جنرل ایویو کوخاوی کو گاڈی آئزن کوٹ کے بعد صہیونی فوج کے 22ویں چیف آف اسٹاف کے طور پر منتخب کیا گیا اور 16 جنوری 2023 کو یہ عہدہ جنرل ہرزی ہالوی کو سونپ دیا گیا۔ 

کوخاوی نے چھاتہ بردار بریگیڈ میں اپنی عسکری سرگرمیاں شروع کیں اور جلد ہی صیہونی حکومت کے انتظامی اور فوجی عہدوں پر ترقی کر دی گئی یہاں تک کہ آخر کار اسے اس یونٹ کا کمانڈر منتخب کر لیا گیا۔

 وہ اس سے قبل صہیونی فوج اور شمالی بریگیڈ میں غزہ کے نام نہاد روم کے کمانڈر اور اس حکومت کی ملٹری انٹیلی جنس برانچ کے سربراہ اور اسرائیلی فوج میں آپریشن یونٹ کے کمانڈر بھی تھے۔ 

صیہونی فوج نے فلسطین کے پہلے اور دوسرے انتفاضہ کو دبانے کے ساتھ ساتھ 1982 اور 2006 میں لبنان پر صیہونی حکومت کی جارحیت اور غزہ پر 2008ء، 2011ء اور 2014ء کی جارحیت میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

پیٹریاس کی خفیہ آڈیو فائل کا مکمل متن

میری رائے میں حماس کی تباہی کا کوئی متبادل نہیں ہے اور میں یہ اصطلاح خاص طور پر اس لیے استعمال کرتا ہوں کہ جیسا کہ ابیب (کوخاوی) بھی جانتے ہیں کہ عسکری ڈاکٹرائن میں کچھ اصطلاحات موجود ہیں۔

ایک سطح بندی ہے، آپ خلل ڈال سکتے ہیں، آپ انکار کر سکتے ہیں، آپ جیت سکتے ہیں اور آپ تباہ کر سکتے ہیں۔ 

میری رائے میں (حماس) کو تباہ ہونا چاہیے فوجی لحاظ سے تباہی کا مطلب یہ ہے کہ آپ دشمن کو اس کے مشن کو حاصل کرنے سے روک دیں اور اسے دوبارہ سنبھلنے کا موقع نہ  دیں۔ اس آخری اصطلاح پر غور کریں اس لئے کہ یہ بہت بڑا اور اہم کام ہے۔ 

غزہ میں آپریشن کے اگلے دن کا انتظام سنبھالنے کے لئے، میری رائے میں آخر کار جس منصوبے کا اعلان وزیر اعظم اور اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف اور ان کے ساتھ آنے والے دیگر افراد کو کرنا چاہیے، انہیں اس بات کو واضح کرنا چاہیے کہ ان کا ارادہ حماس اور اسلامی جہاد کو تباہ کرنا ہے۔ اور اس کے بعد انہیں اس کے سیاق و سباق کی وضاحت کرنی چاہیے اور یہ کہ اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ 

مجھے یقین ہے کہ ابیب (کوخاوی) بھی اس سے متفق ہوں گے، یہ کام صحیح معنوں میں غزہ شہر کے شمال سے شروع ہو کر بتدریج اور منظم انداز سے کیا جانا چاہیے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اسے غزہ کے پورے علاقے میں پھیلایا جانا چاہیے، اگر وہ مکمل طور پر تباہ ہوجاتے ہیں تو مطلوب ہے لیکن یقیناً حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد کی باقیات باقی رہیں گی، جنہیں ایران اپنی واپسی کے لیے فعال کرنے کی کوشش کرے گا۔

 اب چند لمحوں میں مجھے دوبارہ اس نکتے پر توجہ مرکوز کرنی ہے۔

میرے خیال میں یہ بات قابل وضاحت ہے کہ اس منصوبے کی عملی صورت کیا ہوگی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ وہ “ہتھیاروں کی پاکیزگی” ( صیہونی فوج کا جھوٹا نعرہ کہ جنگ میں عام شہریوں، عورتوں، بچوں اور اخلاقیات کو نہیں مارنا ) کے نعرے ساتھ جو کہ آپ اسرائیلیوں کی ایک اصطلاح ہے اور جنیوا کنونشن کی دفعات اور زمینی جنگ کے قوانین جن پر ان مسائل پر زور دیا جانا ضروری ہے۔

 اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ بہت سے لوگ فلسطینی شہریوں کے مسئلے کے بارے میں فکر مند ہیں، واضح رہے کہ لڑائیوں اور جنگوں کے دوران اسرائیلی فوجی شہریوں کی حفاظت کے لیے بڑی مشقتیں اٹھاتے ہیں۔ البتہ یقیناً یہ بات واضح رہے کہ فوجی وردی کے بغیر دشمن ایسے ہوتے ہیں جو شہریوں کے درمیان چھپ جاتے ہیں، مثلاً یرغمالی بن کر اور خودکش بمبار ہوتے ہیں۔ جی ہاں، سڑک کے کنارے بم ہے، دھماکہ خیز جال ہیں، کمرے دھماکہ خیز مواد سے اڑ جائیں گے، عمارتیں پھٹ جائیں گی، وغیرہ…

یہ کام طریقہ کار اور احتیاط سے کیا جانا چاہیے اور اس مسئلے پر زور دیا جانا چاہیے جیسا کہ ایویو (کوخاوی) بھی جانتا ہے کہ اگر آپ ایک عمارت کو خالی کرتے ہیں اور پچھلی پوزیشن میں کچھ فورسز کو تعینات کیے بغیر دوسری عمارت میں جاتے ہیں، تو دشمن آپ پر پشت سے حملہ کرے گا، اور اس صورت میں، آپ 360 ڈگری کی الٹی جنگ کے مرحلے میں داخل ہوں گے۔ 

اس لیے وہ دوبارہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ یہ کام مختلف علاقوں میں نہایت طریقہ کار اور صبر کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔

مجھے یہ بھی بتانا چاہیے کہ جتنی جلدی ممکن ہو جب حالات معقول حد تک محفوظ ہو جائیں، تعمیر نو کی بات شروع کر دی جائے، تباہی اور نقصانات کی تلافی شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جائے اور یہاں سے ہم منصوبے کے ایک اور اہم عنصر یا مرحلے تک پہنچ جائیں گے (جس کا اعلان کیا جائے) کہ غزہ کے لوگوں کے لیے مغربی کنارے کو دیکھتے ہوئے زندگی کیسی ہوگی؟۔

 داخلی سیاست کو نقصان پہنچا ہے کہ اسرائیل آہستہ آہستہ مثالی ہو جائے گا۔ البتہ یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہم نے جب عراق میں القاعدہ اور بعد میں داعش کے خلاف کلین آپریشن کا منصوبہ بنایا تو سنی عربوں سے کہا کہ اگر آپ ان کو پیچھے ہٹا دیں اور ان کے خلاف ہماری مدد کریں تو  البتہ یہاں یقیناً مجھے فلسطینیوں سے امید نہیں کہ وہ ان (حماس) کے خلاف آپ کی مدد کریں گے، لیکن کم از کم وہ فعال طور پر ان کی اور مزاحمت کے راستے میں حمایت نہیں کر سکتے۔ آپ پر آفتیں حماس کی وجہ سے آگئی ہیں اور اس طرح کے پرفریب الفاظ (سے عوام کو قانع کیا جائے)… لیکن میرے خیال میں یہ ایک افقی (وسیع) منصوبہ ہونا چاہیے اور میں ایک بار پھر اس بات پر زور دیتا ہوں کہ لوگ غزہ میں فلسطینیوں کے مستقبل کے بارے میں بہت فکر مند ہیں اور وہ سوال اٹھا رہے ہیں؟

میری رائے میں اس بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ اسرائیل غزہ کا انتظام مختصر مدت کے لیے سنبھالے گا اور کوئی بھی اس پر دوبارہ قبضہ نہیں کرنا چاہتا۔

میں جانتا ہوں کہ اس معاملے میں چیلنجز ہیں، لیکن مجھے اندازہ نہیں ہے کہ ایک قابل اعتماد جماعت یا تنظیم جو انتظام سنبھالے سردست موجود نہیں ہے۔

 یاد رہے کہ اگر آپ حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد کے دہشت گردوں کو تباہ کرنے کے لیے افواج بھیجتے ہیں، یا جیسا کہ آپ نے اہداف میں کہا ہے اس کی سیاسی شاخ کو تحلیل کرنا ہے تو پھر (غزہ) کا انتظام کون سنبھالے گا؟ ? ذہن میں رکھیں کہ یہ انتظامیہ صرف انسانی امداد تقسیم کرنے اور خدمات کو بحال کرنے تک محدود ہو۔

یہ انتظام ابتدائی نہیں ہے، یہ تعمیر نو کا آغاز نہیں ہے، یہ اسکولوں، بازاروں اور کلینکوں کا قیام بھی نہیں ہے، اس مسئلے کو ایک انسداد بغاوت مہم کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
 یہی وجہ ہے کہ استحکام کی کارروائیوں کے نفاذ کے علاوہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے معلومات کو آگے بڑھاتے ہوئے اقدامات کیے جائیں تاکہ حکومت اسلامی (ایران) اسلامی جہاد اور حماس اپنے آپ کو باقی ماندہ مزاحمتی عناصر  کے ذریعے دوبارہ طاقتور نہ بنا سکیں۔ البتہ یقینا، وہ اس کے لئے بھرپور جد و جہد کریں گے۔

اس لیے ان تمام عناصر کو ایک وسیع اور دقیق تناظر میں واضح طور پر بیان کیا جانا چاہیے اور بغیر کسی تکلف کے ان پر عمل کیا جانا چاہیے تاکہ اسرائیلی رہنما حقائق سے آگاہ ہو جائیں اگرچہ یہ قبول کرنا ان کے لئے مشکل ہی کیوں نہ ہو۔

 میں یہ بات بلاتکلف اور بغیر لگی لپٹی کے کہہ سکتا ہوں کہ عراق پر حملے کے وقت ہمارے پاس اس حوالے سے مناسب نقطہ نظر اور منصوبہ نہیں تھا۔ 

ہم نے ان مسائل پر توجہ نہیں دی اور نہ ہی ان مسائل کو دریافت کیا جو کہ کشیدگی کے بعد کے دور کے لیے ہماری منصوبہ بندی کے مراحل میں  کلی طور پر ناکافی تھا اور اس کی وجہ سے ہم نے واقعی احمقانہ اور غیر تعمیری فیصلے جو ہدف کو حاصل کرنے کے بجائے لاکھوں نئے عراق مخالف مسائل پیدا کرنے کا سبب بنیں۔

 مثال کے طور پر ہم نے فوجیوں کو یہ بتائے بغیر برخواست کر دیا کہ وہ اپنے خاندانوں کی کفالت کیسے کر سکیں گے۔

ہم نے انتظامی سطح پر نظام کو درہم برھم کر دیا جب کہ ایک ملک کو چلانے کے لیے دسیوں ہزار افراد کی ضرورت ہے لیکن عراق کو بغیر کسی سمجھوتے کے چھوڑ دیا گیا۔ 
اس لیے یہ نقشے جو میں نے کھینچے ہیں بہت ضروری اور اہم ہیں اور ہم اس خیال کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکتے جو اب تک رائج ہے کہ ہم اس کے بارے میں بعد میں سوچیں گے جب ہم اس جگہ کو فتح کر لیں گے اور یہ کہ ہم جنگی کارروائیوں پر فعال طور پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔

 یہ نظریہ مجھ جیسے شخص کے لیے جو ان معاملات کا انچارج رہا ہو، سمجھتا ہوں کہ اس طرز فکر سے تمہارا کام (ہدف حاصل) نہیں ہو گا۔

خفیہ آڈیو فائل کا ایک جائزہ

اس ملاقات میں جنرل پیٹریاس نے عراق اور افغانستان میں ناکام امریکی حکمت عملیوں کو غزہ کے عوام کے حل کے طور پر تجویز کیا۔

2001 میں افغانستان پر قبضہ کرکے امریکہ نے اس ملک کے لوگوں سے بہتر زندگی کا وعدہ کیا لیکن 20 سال بعد وہ ذلت کے ساتھ افغانستان سے فرار ہو گئے جب کہ “دہشت”، “غربت” اور “دربدری” افغانستان پر 20 سال کے امریکی قبضے کی مذموم میراث ہیں۔ 

اس 20 سالہ قبضے میں، براؤن یونیورسٹی کے مطابق، 2500 امریکی فوجی اور تقریباً 4000 امریکی ٹھیکیدار مارے گئے۔ 

امریکی خصوصی انسپکٹر جنرل کے دفتر برائے افغانستان امور(SIGAR) نے بھی اعلان کیا ہے کہ “افغانستان میں 20 سالہ جنگ میں 66,000 افغان فوجی اور 48,000 افغان شہری مارے جا چکے ہیں اور 75,000  شہری زخمی ہوئے ہیں۔

 اس جنگ کا نتیجہ افغانستان کی تباہی، دہشت گردی اور عدم استحکام کے نہ ختم ہونے والے چکر کی صورت میں نکلا ہے۔

عراق میں امریکہ شیطانی وعدوں کے ساتھ داخل ہوا اور اس ملک کو اس حالت پر پہنچا دیا جہاں 20 سال بعد بھی وہ دہشت گردی اور عدم تحفظ کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ 
برطانوی تنظیم (Opinion Research Business) کے مطابق صرف 2007 تک یعنی جنگ شروع ہونے کے 4 سال بعد تک بارہ لاکھ عراقی مارے گئے۔

 افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ان مرنے والوں میں سے تقریباً 40 فیصد خواتین اور بچے تھے۔

اس آڈیو فائل میں جنرل پیٹریاس نے واضح طور پر اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی خواتین اور بچوں کے دانستہ قتل کا ذکر کیا ہے اگرچہ وہ خاص ادبیات کا سہارا لے کر اس قتل کو جواز فراہم کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ 

پیٹریاس صیہونیوں کو رہائشی عمارتوں کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانے کی حکمت عملی بھی تجویز کرتا ہے، وہی حکمت عملی کہ جس کے نتیجے میں اب تک 3826بچوں سمیت تقریباً 9227 فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں۔

 فلسطینی عوام کے بہیمانہ قتل کو جواز فراہم کرنے کے لیے امریکی جنرل صیہونیوں کے ہاتھوں غزہ کی تعمیر نو کی تجویز پیش کرتا ہے جس کا مقصد اسرائیل کا امیج بحال کرنا ہے۔ یہ وہ فریب کارانہ حکمت عملی ہے جسے امریکیوں نے عراق اور افغانستان کے لوگوں کے قتل کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن اس حکمت عملی کا نتیجہ خطے میں عدم استحکام، امریکی قبضے میں شامل ممالک کے لاکھوں بے گناہوں کی قربانی، غربت اور افلاس کی صورت میں نکلا۔ 

اس ملاقات میں پیٹریاس نے عراق پر قبضے کے حوالے سے امریکہ کی احمقانہ حکمت عملی اور اس کے اس ملک کے عوام کے لیے بھیانک نتائج کا اعتراف بھی کیا لیکن پھر بھی وہ غزہ کے لیے یہ احمقانہ اور ناکام حکمت عملی تجویز کرتا ہے۔

نتیجہ کلام

الاقصیٰ طوفان آپریشن میں غاصب صیہونی رجیم کو بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا جسے رہبر انقلاب اسلامی نے بجا طور پر “ناقابل تلافی شکست” قرار دیا۔ 

بالادست فوجی اور انٹیلی جنس طاقت ہونے کا دعویٰ کرنے والی رجیم  کی ایک چھوٹے اور محصور گروہ سے شکست نے امریکہ کو حماس اور غزہ کی پٹی کے خلاف جنگ کا براہ راست کنٹرول سنبھالنے پر مجبور کر دیا ہے لہذا وہ اس ذلت آمیز شکست کی تلافی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 

اب تک معصوم فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل اور غزہ کی پٹی پر چوبیس گھنٹے بمباری کے علاوہ اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے کوئی خاص حکمت عملی پیش نہیں کی گئی۔ 

اگرچہ زمینی آپریشن مرحلہ وار کیا جا رہا ہے لیکن ابھی تک اس میں صہیونیوں کو کامیابی نہیں ملی ہے۔ اس رسواکن صورتحال میں جنرل پیٹریاس ” جلتی زمین” کے پلان کے ذریعے غزہ کی پٹی کو تباہ کرنے کی تجویز دے کر کسی بھی قیمت پر فتح حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 

لیکن اس حکمت عملی کا تجربہ 22 سال پہلے افغانستان میں اور 20 سال پہلے عراق میں ہوا تھا جس کے بھیانک نتائج سب دیکھ چکے ہیں۔ 

ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اس بار غزہ کی پٹی میں اپنی غلطیوں کو دہراتے ہوئے خطے میں صیہونیوں کے نام ایک اور رسواکن شکست ریکارڈ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *