[]
مہر خبررساں ایجنسی-سیاسی ڈیسک؛ بنیادی انسانی ضروریات جیسے خوراک، پانی، ایندھن، اور مناسب حفظان صحت کی سہولت کے فقدان نے ان کی زندگیوں کو محصور علاقے میں جاری جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ جانی نقصانات کی تعداد 8,300 سے تجاوز کر گئی ہے، جس میں معصوم بچوں کا تناسب خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ اسرائیل نے غزہ کی شہری آبادی کے وحشیانہ قتل عام کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک وسیع میڈیا مہم شروع کی ہے۔
ہسپتالوں، سکولوں، مساجد، گرجا گھروں اور دیگر پناہ گاہوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے جو کہ دنیا کی نظروں کے سامنے ہورہا ہے لیکن نام نہاد عالمی برادری خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
نہتے فلسطینیوں کے دل دہلا دینے والے مناظر ہیں، والدین اپنے بچوں کے جسموں پر نام لکھ رہے ہیں تاکہ شہادت کی صورت میں لاش کی شناخت ہو سکے۔
صیہونی رجیم کے سفید فاسفورس بم حملوں کے نتیجے میں بچوں کی مسخ شدہ لاشوں کی شناخت ایک سنگین اور قیامت خیز عمل ہے۔
عرب ریاستیں اس حالتِ زار پر غیر جوابدہ دکھائی دیتی ہیں جب کہ مغرب نہایت بے شرمی سے اسرائیلی رجیم کے وحشت ناک جرائم کی حمایت کر رہا ہے۔
غزہ میں پھنسے ہوئے بچے موت و حیات کی غم انگیز کشمکش میں ہیں۔ لیکن اس قابل رحم حالت کے باوجودطسوشل میڈیا پر ان کی تکلیف دہ تصویروں اور حالتِ زار کو مغرب کا مین اسٹریم میڈیا دانستہ طور پر نظر انداز کر رہا ہے۔
طرفہ تماشا یہ کہ انسانی حقوق کے خود ساختہ چیمپیئن ممتاز امریکی میڈیا ہاوسز بھی پچھلے 24 دنوں میں فلسطینی بچوں کی حالت زار کو بیان کرنے کے بجائے گئے اسرائیلی پالتو جانوروں کی تصوریریں نشر کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
سیو دی چلڈرن نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق گزشتہ تین ہفتوں میں غزہ میں گزشتہ چار سالوں میں دنیا بھر میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد سے زیادہ فلسطینی بچے مارے گئے ہیں۔
“غزہ میں صرف تین ہفتوں کے دوران جان بحق ہونے والے بچوں کی تعداد عالمی سطح پر فوجی تصادم میں ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔
اس خبر رساں ادارے نے خبردار کیا کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ میں ممکنہ زمینی کارروائی فلسطینی بچوں کے لیے اور بھی زیادہ پریشانی کا باعث بنے گی۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ امریکہ نے اس معاملے میں بلیم گیم کا سہارا لیا ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن نے فلسطینیوں کے جاری کردہ اعداد و شمار پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے فلسطینیوں کے بیان کردہ اعداد و شمار پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔
دوسری طرف وائٹ ہاؤس نے اعداد و شمار کو مخدوش کرنے کے لیے غزہ کی وزارت صحت پر حماس کے مبینہ کنٹرول کا الزام لگایا جب کہ وائٹ ہاوس فلسطینی جانی نقصانات کی “حقیقی” تعداد کا پتہ لگانے کے لیے اپنی حکمت عملی کی وضاحت کرنے یا اس بارے میں کسی ٹھوس اقدام کا خاکہ پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔
بائیڈن کے تبصرے کے جواب میں، غزہ میں فلسطینی وزارت صحت نے 7 اکتوبر سے جان بحق ہونے والے فلسطینیوں کی فہرست جاری کی، جبکہ ہر ایک کے نام کو سرکاری شناختی نمبر کے ساتھ جوڑا کر دیا۔ یہ فہرست 150 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ 26 اکتوبر تک 7000 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ مرنے والوں میں سے تقریباً 3000 بچے تھے۔
جب کہ امریکہ نہایت بے شرمی سے فلسطینیوں کے جاری کردہ اعداد و شمار کو مشکوک قرار دینے پر زور دے رہا ہے۔
تاہم تہران ٹائمز نے ان 1000 فلسطینی بچوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کا گزشتہ تین ہفتوں کے دوران اسرائیلی حکومت نے قتل عام کیا ہے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ اس طرح کے دل دہلا دینے والے سانحات ختم ہوں گے اور صییونی رجیم اور مغرب فلسطینی بچوں کے جینے کے حق کا احترام کریں گے۔
بشکریہ تہران ٹائمز
en.mehrnews.com/news/207787/