[]
مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے بتایا ہے کہ صیہونی میڈیا نے کمپیوٹر گیمز کے ورلڈ کپ کے فائنل میں شرکت کے دوران سعودی عرب میں غاصب صیہونی حکومت کی ٹیم کے استقبال کی خبر دی ہے۔
عبرانی چینل “کان” کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تل ابیب کی ٹیم کمپیوٹر گیمز کے فیفا ورلڈ کپ کے فائنل میں شرکت کے لیے ریاض پہنچی ہے اورغاصب رجیم کے کھلاڑی اسرائیلی پاسپورٹ پر سعودی عرب داخل ہوئے۔
صیہونی ٹیم کی ڈائریکٹر زویکا کوسمین نے کہا: ” (غاصب) اسرائیلی ٹیم کو سعودی اسپورٹس ایسوسی ایشن کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں انہیں سعودی عرب میں داخلے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن خط میں اسرائیل کا نام واضح طور پر نہیں لکھا گیا تھا، صرف یہ کہا گیا تھا کہ قومی ٹیم کے تمام کھلاڑی سعودی عرب میں داخل ہو سکتے ہیں۔”
در این اثناء صیہونی نامہ نگار روئے کیس نے انکشاف کیا ہے کہ “سعودی حکومت کی وزارتوں بشمول ثقافت، کھیل اور داخلہ نے اس سلسلے میں ٹیم کی مدد کی، لیکن صیہونی حکومتی حکام اور سعودی عرب کے درمیان براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہوا بلکہ سب کچھ فیفا کے ذریعے کیا گیا”۔
واضح رہے کہ غاصب اسرائیلی ٹیم کی ریاض فیفا ورلڈ کپ میں شرکت کی خبر ایسے موقع پر سامنے آئی ہے کہ جب ہفتہ قبل امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن اور غاصب اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک ملاقات میں بلنکن نے مغربی کنارے میں حالیہ کشیدگی میں اضافے کا حوالہ دیتے ہوئے کوہن سے کہا تھا کہ تل ابیب اور ریاض کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل واشنگٹن کے لیے بہت زیادہ مشکل اور شاید ناممکن ہے، کیونکہ غاصب اسرائیل کی برف سے فلسطین کے مغربی کنارے میں جارحیت کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
دوسری طرف امریکی معاون وزیر خارجہ برائے مشرقی امورباربرا لیف نے بھی رواں ماہ کے آغاز میں کانگریس کی ایک بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا تھا کہ تل ابیب اور ریاض کے درمیان تعلقات کے معمول پر آنے کے بارے میں صیہونی میڈیا میں مسلسل جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ جہاں نیتن یاہو کے حمایتی ذرائع ابلاغ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو جلد معمول پر لانے کی بات کرتے ہیں، وہیں دیگر صہیونی ذرائع کا کہنا ہے کہ “سعودی عرب اس وقت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہیں لانا چاہتا اورصیہونیوں کوحالات کی پیچیدگی کے یہ اشارے سمجھ میں آنے چاہئے۔”
اس سے قبل تل ابیب میں امریکہ کے سابق سفیر ڈینیل شاپیرو نے کانگریس کی ایک بحث میں کہا تھا کہ “تل ابیب کے ساتھ ریاض کے تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو نئے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سب سے اہم سعودی عرب کے سینئررہنماؤں کی حمایت کی کمی اور اس مسئلے کی گھٹتی اہمیت ہے جو تعلقات کے معمول پر آنے میں رکاوٹ ہیں۔