"طوفان الاقصی" کے بعد سعودی عرب سمیت عرب ممالک اور صہیونی حکومت کے تعلقات کا مستقبل کھٹائی میں پڑگیا

[]

مہر خبررساں ایجنسی_ سیاسی ڈیسک؛ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بعض عرب ممالک کے حکمرانوں کے فوٹو سیشن کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب اگست 2020 میں صہیونی حکومت اور عرب امارات نے ابراہام معاہدے پر مشترکہ طور پر دستخط کئے تھے۔ اس معاہدے کو صہیونی حکومت اور عرب امارات اور اسی طرح بحرین کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لئے استعمال کیا گیا۔ ابراہام معاہدے پر دستخط کی تقریب وائٹ ہاوس میں منعقد ہوئی تھی۔

معاہدے پر دستخط کے بعد اس وقت کے امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپئیو نے امید ظاہر کی تھی کہ فسلطینی امریکہ کے ساتھ متحد ہوکر اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لئے سنجیدگی سے غور کریں گے۔

اس موقع پر ٹرمپ نے کہا تھا کہ سعودی عرب سمیت پانچ عرب ممالک صلح کے لئے آمادہ ہوسکتے ہیں۔ سوڈان اور عمان نے سبقت لی۔ بحرین اور عرب امارات بھی اس معاہدے کے تحت نام نہاد صلح میں شامل ہونے پر آمادہ تھے۔ اس سے پہلے مصر اور اردن نے بالترتیب 1979 اور 1994 میں صہیونی حکومت کے ساتھ اعلانیہ تعلقات قائم کئے تھے۔

سعودی عرب اور صہیونی حکومت کے درمیان روابط کی تاریخ پرانی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں وسعت پیدا ہوئی ہے۔ معاہدہ ابراہام کے بعد دونوں کے درمیان تعلقات کی باتیں حکومتی ایوانوں سے نکل کر ذرائع ابلاغ اور بین الاقوامی محافل کی زینت بننے لگی ہیں۔ اسرائیلی شہری صہیونی حکومت کے پاسپورٹ کے بغیر سعودی عرب کا سفر کرنے لگے۔

طوفان الاقصی سے چند روز پہلے سعودی ولی عہد نے صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے گفتگو کی تھی۔ روزنامہ الشرق الاوسط کے مطابق سعودی ولی عہد نے کہا تھا کہ ریاض ہر روز تل ابیب کے ساتھ تعلقات سے نزدیک ہورہا ہے البتہ فلسطینیوں کے اہداف پورے کی شرط کے ساتھ۔
طوفان الاقصی کے بعد تعلقات کے قیام کا سلسلہ بند ہونے کی خبریں موصول ہونے لگیں حتی کہ بعض سعودی حکام نے ان خبروں کی تائید کی۔

چند عرب ممالک کی جانب سے گزشتہ چند سالوں کے دوران عوامی کثیر مخالفت کے باوجود صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کیا گیا۔
عوام میں مقبولیت نہ ہونے کی وجہ سے عرب ممالک کے جابر حکمران امریکہ اور صہیونی حکومت جیسی استکباری طاقتوں سے قربت کو اپنے تخت و تاج کی حفاظت کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ٹرمپ نے ایک مرتبہ اپنے خطاب میں کہا تھاکہ “ہم سعودی عرب کی حفاظت کریں گے۔ آپ خیال کرتے ہوں گے کہ چونکہ سعودی عرب دولت مند ہے۔ ایسی بات نہیں ہے میں سعودی بادشاہ کا عاشق ہوں اور ان کو وعدہ کیا ہے کہ ان کی حفاظت کریں گے۔ چونکہ امریکی حمایت کے بغیر دو ہفتے بھی آپ کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی ہے لہذا ہمارے فوجی اخراجات آپ کو ادا کرنا ہوگا۔

چند عرب ممالک اس صہیونی حکومت سے تعلقات کی پینگیں بڑھارہے ہیں جو خود داخلی مشکلات اور بحران سے دوچار ہے۔ سیاسی بحران، بے مثال بدامنی، انتفاضہ، اندرونی جنگ و فسادات اور دیگر مشکلات کی وجہ سے صہیونی حکومت کی بقاء کے بارے میں میڈیا میں کئی مہینوں سے تبصرے ہورہے ہیں۔

حالیہ سالوں میں پانچ مرتبہ انتخابات ہوئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ کابینہ سقوط کرچکی ہیں۔ صہیونی حکومت کے صدر نے ان حالات پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے داخلی جنگ اور تصادم سے خبردار کیا ہے۔ انہوں نے موجودہ بحرانوں کو بارود سے تشبیہ دیا ہے جو کسی بھی پھٹ سکتا ہے۔

صہیونی افواج کے سابق ترجمان نے کہا تھاکہ اسرائیل کو درپیش بحران کی گذشتہ بیس سالوں میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ تل ابیب سمیت تمام شہروں اور قصبوں میں نتن یاہو کی انتہاپسند حکومت کے خلاف شدید عوامی مظاہرے ہورہے ہیں۔ نتن یاہو کی کابینہ نے عدالتی اصلاحات کے منصوبے کے ذریعے عالمی سطح پر صہیونیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش شروع کی تھی لیکن ساری تدبیریں الٹی پڑگئیں اور اس منصوبے کے بعد اسرائیل میں داخلی اختلافات کا شگاف مزید وسیع ہوگیا۔

صہیونی مسلح افواج کے مشترکہ کمیشن کے سربراہ ہرٹزی ہالوی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صہیونیوں میں جاری اختلافات کا دائرہ پھیلتے ہوئے فوج تک پہنچ گیا ہے۔ موجودہ بحران کی وجہ سے صہیونی افواج کئی گروہوں میں تقسیم ہورہی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عرب حکمران کس خوش فہمی میں مبتلا ہیں اور ایسی حکومت کے ساتھ کیوں تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں جو داخلی طور پر شدید بحران سے دوچار اور دنیا کی جدید ترین فوج ہونے کے باوجود معدود مقاومتی تنظیموں کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حالیہ سالوں میں بار بار صہیونی جعلی حکومت کے زوال اور نابودی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وحدت کانفرنس کے دوران اسلامی ممالک کے سفیروں اور فوجی اعلی حکام سے خطاب کے دوران انہوں نے صہیونی حکومت سے تعلقات کی کوششوں کو ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگانے کے مترادف قرار دیا تھا جس کا نتیجہ شکست ہی ہے۔ مقاومت ہر دور سے زیادہ آمادہ اور تیار ہے جبکہ صہیونی حکومت رو بزوال اور آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ ایران کا موقف یہ ہے کہ صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جوا کھیلنے والے آخر میں یہ کھیل ہار جائیں گے کیونکہ صہیونی حکومت انہدام کی جانب گامزن ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے فلسطینی جوانوں کو ہر دور سے زیادہ پرجوش اور آمادہ قرار دیا اور کہا کہ یہ تحریک کامیاب ہوجائے گی اور یہی جوان کینسر کے پھوڑے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ صہیونی حکام خود سقوط کی پیشن گوئی کررہے ہیں۔ سابق حکومت کے اعلی حکام اقرار کررہے ہیں کہ اسرائیل اسی سال تک نہیں پہنچ پائے گا۔ ہم نے کہا تھا کہ آئندہ 25 سال دیکھنا نصیب نہیں ہوگا لیکن ان کو خود جلدی ہے اور جلدبازی میں ختم ہونا چاہتے ہیں۔ 

طوفان الاقصی کے بعد عرب ممالک اور مغربی حکومت کے کئی منصوبے کھٹائی میں پڑگئے ہیں جن میں خطے میں تعلقات اور روابط میں توسیع بھی شامل ہے۔ سعودی حکام اس آپریشن سے پہلے صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات اور دوستی کی باتیں کرتے تھے لیکن حالیہ دنوں میں ان کے بیانات اور لہجے میں تبدیلی آئی ہے۔ صہیونی حکومت کے سااتھ تعلقات کا معاملہ سردمہری کا شکار ہوچکا ہے۔ امریکہ کی اپیل کے باوجود سعودی حکام نے حماس کی مذمت سے گریز کیا ہے۔

امریکی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب اور صہیونی حکومت سے تعلقات رکھنے والے کئی ممالک نے حماس کی مذمت کرنے کی امریکی اپیل کو مسترد کردیا ہے۔

صہیونی جریدے یروشلم پوسٹ کے مطابق سعودی عرب نے امریکہ کو مطلع کردیا ہے کہ صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کو روک دیا ہے۔ 

رہبر معظم کی جانب سے صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے عرب ممالک کو انتباہ اور طوفان الاقصی شروع ہونے کے بعد عرب ممالک اور صہیونی حکومت کے درمیان تعلقات کے قیام کا منصوبہ کھٹائی میں پڑگیا ہے۔ گویا طوفان الاقصی کی زد میں صہیونی حکومت کے دیگر منصوبوں کی طرح عرب ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے ارمان بھی بہہ کر بحیرہ روم میں غرق ہوگئے ہیں
مبصرین کے مطابق صہیونی حکومت اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کا منصوبہ طویل مدت کے لئے بند گلی میں چلا گیا ہے اور اس حوالے سے کسی پیشرفت کے امکانات مستقبل بعید میں معدوم ہوگئے ہیں۔

[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *