[]
مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے دوسری شہداء ہمدان کانفرنس کے منتظمین سے ملاقات کے دوران کہا کہ ہمارا اہم وظیفہ یہ ہے کہ شہداء کی یاد، نام اور ان کے کارناموں کو زندہ اور ان کے پیغام کو دلوں تک پہنچانا ہے۔ ان کا نام اور قربانی کا ذکر زندہ رہے گا البتہ متضاد عوامل اگر میدان میں داخل ہوجائیں تو ان کو نقصان پہنچ سکتا ہے لہذا ہمارا وظیفہ ان کے نام اور راہ کو زندہ رکھنا ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے شہداء کا نام زندہ رکھنے کی روش کے بارے میں کہا کہ ان نمونوں کو سامنے لانے کے لئے ہنری طریقوں سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کی ایک مثال مرحومہ خانم دباغ ہیں جو شہداء کی طرح تھی اور اسلامی معاشرے کو ایک بہترین عورت کے نمونے کے طور پر دکھایا جاسکتا ہے۔
رہبر معظم نے انقلاب سے پہلے اور بعد میں سیاسی، ثقافتی اور اجتماعی شعبوں میں خانم دباغی کی فعالیتوں اور کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے طاغوتی حکومت کے خلاف جدوجہد کے دوران ایک جنگجو کی طرح مقابلہ کیا۔ امام خمینی کی پیرس میں جلاوطنی کے دوران ان کے ہمراہ جہاد کیا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد صوبہ ہمدان میں سپاہ کی قیادت کی۔ سیاسی اور اجتماعی شعبوں میں ان کی فعالیت کی وجہ سے امام خمینی نے گورباچوف کو پیغام لے جانے والے تین رکنی وفد میں ان کو شامل کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ خانم دباغ اسلامی اور انقلابی عورت کا ایک مکمل نمونہ ہے۔ اسی ایک نمونے پر ہنری فعالیت کرکے اسلامی حکومت میں عورت کی حقیقی تصویر کو پیش کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران خواتین کے مسئلے میں دفاعی حکمت عملی نہیں رکھتا کیونکہ مغرب ہے جس نے خواتین کی عزت اور شرافت کو پامال کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض افراد اسلام اور قومیت کو الگ الگ چیز کے طور پر دکھانے کے درپے ہیں لیکن شہداء نے ان کے اس رویے کو باطل ثابت کردیا ہے۔ جب ایران پر بین الاقوامی سطح پر حملہ کیا گیا تو یہی لوگ اپنے گھروں میں چھپ گئے یا بیرون ملک فرار ہوگئے لیکن مسلمان جوانوں اور شب زندہ داروں نے ایران اور اسلام کے لئے قربانی دی اور اسلامیت اور قومیت کے ایک ہونے کا ثبوت دیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کی کہ ہر مومن اور انقلابی فرد اپنے ملک اور وطن کا دفاع بھی کرے گا۔ ان پیغامات کو ہنری طریقوں سے دلوں میں راسخ کرنے کی کوشش کی جائے۔
رہبر معظم نے اپنے خطاب کے دوران صوبہ ہمدان کی درخشان تاریخ کی طرف اشارہ کیا اور ملکی تمدن کا پہلا مرکز قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمدان علم، دین، جہاد، ہنر اور تمام اقدار کا مرکز ہے۔ انقلاب سے پہلے اور بعد میں مخصوصا دفاع مقدس کے دوران ہمدان کے عوام، جوانوں اور علماء نے دشمن کے مقابلے میں اہم کردار ادا کیا۔ سردار شہید ہمدانی، شہید خوش لفظ، شہید سلگی، شہداء مدافع حرم اور شہداء امنیت اس کی مثال ہیں۔