کیا پرانے شہر میں منشیات کا چلن بڑھ رہا ہے ؟

[]

محمد اسمٰعیل واجد
9866702650

مقولہ مشہور ہے کہ ’بدہونا بدنام نہیں ہونا‘‘ موجودہ دور میں یہ مقولہ پرانے شہر پر صدفیصد درست ثابت ہورہا ہے۔ جہاں کل تک ہمیں اپنے معاشرے کے افراد سے گِلا تھا یا شکایت تھی کہ وہ پرانے شہر کے رہنے والوں سے تنگ نظری، اور احتیاط برتنے والا رویہ اختیار کرتے ہیں یہ بات کھل کر کئی معاملات میں سامنے آئی، خاص طور پر اخبارات میں ضرورتِ رشتہ کے جو اشتہارات شائع ہوتے ہیں، اس میں تو کھلے طور پر لکھا رہتا ہے کہ پرانے شہر کے رہنے والے زحمت نہ کریں … اب اس سے بڑھ کر تنگ نظری کی اور کیا مثال ہوگی جو ہمارے مہذب معاشرے کی تنگ نظری کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔ ان حالات میں مشہور شاعر اقبال اشہرؔ کا یہ شعر یاد آتا ہے ۔

ستم تو یہ کہ ہماری صفوں میں شامل ہے
چراغ بجھتے ہی خیمہ بدلنے والے لوگ

ہمیں یہ شعر اس لئے یاد آگیا کہ ہم نے بھی ضرورت رشتہ کا اشتہار پڑھ کر فون کیا تھا فو ن اٹھاتے ہی کسی نامعلوم خاتون کا پہلا سوال تھا آپ کہاں سے بات کررہے ہیں ؟ہم نے بھی جواباً سوال اُٹھایا آپ کہاں سے؟ جواب ملا ہم نئے شہر سے بات کررہے ہیں ہم نے بھی جواباً عرض کیا ہم قدیم شہر کے معروف ترین محلہ یاقوت پورہ سے بات کررہے ہیں ۔ جواب ملاکہ ہم نے لکھ دیا ہے کہ پرانے شہر والے زحمت نہ کریں پھر بھی آپ خود کا اورہمارا وقت کیوں خراب کررہے ہیں ؟ فون کٹ کرتے ہی ہمارے ذہن کو ایک زناٹے دار جھٹکا لگا اور سن ہوکر رہ گئے اور سوچنے لگے کیا ہم ایسے بدنام بستیوں کے واسی ہیں جن بستیوں سے لوگ کتراتے ہیں اور وہاں رشتے تک نہیں کرنا چاہتے بڑے غور و فکر کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ جولوگ نئے شہر میں رہنے کا دھرم بھرتے ہیں اور اتراتے ہیں ان کے آبائے واجداد بھی پرانے شہر کے شہری تھے بلکہ یہ خود بھی حال حال میں پرانے شہر سے نئے شہر میں شفٹ ہوئے اور اب اترارہے ہیں…

غرور اور مغروریت کے تانے ماررہے ہیں حد تو یہ ہوگئی کہ رشتوں کے اشتہار میں صاف طور پر لکھ دیتے ہیں کہ پرانے شہر والے زحمت نہ کریں تعجب ہے ایسی اکڑ اور غرور پر ۔ اس واقعہ کے ساتھ ہمارے ذہن میں ایک اور افسوسناک واقعہ یاد آگیا ہمیں اچانک ہی ایک فون آیا جو ایک ہمارے پرانے دوست کا تھا فون اٹھاتے ہی اس کے رونے بلکنے کی آواز آئی، ہم نے کہا خیریت سب ٹھیک ہے ناں بھائی جواب ملا میرے دوست والد صاحب کا انتقال ہوگیا ہم نے افسوس کے ساتھ صبر و تحمل کا مشورہ دیا اور پوچھا نماز جنازہ کہاں ہوگی اور تدفین کہاں عمل میں آئے گی جواب ملا کہ نمازِ جنازہ تو یہیں کی مقامی مسجد میں ادا کی جائے گی اور تدفین آبائی قبرستان جو پرانے شہر میں اپنے پرانے گھر کے قریب ہے جہاں ہمارے دادا پر دادا کی قبریں ہیں چھوٹے بھائی اسی سلسلہ میں پرانے شہر گیا ہوا ہے ، ہم نے بڑے عاجزانہ لہجے میں کہا میرے دوست میں تمہارے بھائی سے مل لوں گا اور نماز جنازہ میں بھی شرکت کروں گا ۔ اب اندازہ لگائیے کہ لہجے کیسے بدلتے ہیں اور انداز کیسے تبدیل ہوتا ہے ۔ اسی لئے ہمیں ایک اور قدیم مقولہ یاد آگیا ’’غرور کا سرنیچا‘‘ لیکن اب مزاج بدل گیا تہذہب وتمدن میں دراڑیں پڑنے کو ہیں تو کس سے گلہ کریں بقول بشیر بدرؔ:

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملوگے پتہ کریں
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلہ سے ملا کرو

حال ہی میں اخبارات میں ایک خبر آئی تھی جو چونکا دینے والی بھی تھی، اس خبر کی سرخی کچھ اس طرح تھی ’’منشیات کے خلاف مہم کے نام پر قدیم شہر کو بدنام کرنے کی کوشش‘‘ اس سرخی نے ہمیں چونکا دیا اور ہم نے اس خبر کو مکمل طورپر پڑھنا ضروری سمجھا خبر کے متن میں یہ لکھا تھا ’’ حیدرآباد کو منشیات سے پاک بنانے کے نام پر چلائی جانے والی شعور بیداری مہم کے علاوہ پرانے شہر کے مختلف علاقوں میں نوجوانوں کی تلاشی کے ذریعہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ پرانے شہر میں منشیات کے عادی نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ہے ۔ پولیس حکام کی جانب سے منشیات کے متعلق شعور بیداری کے نام پر راہ چلتے نوجوان پوسٹرس اور بیانر تھامے ہوئے انہیں سڑکوں کے کنارے کھڑا کیا جانا ان کی تصویر کشی کرنے سے منشیات کے خاتمہ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ایساشائد پولیس کا ماننا ہو ۔

ایسا اس اخبار میں شائع شدہ بڑی سی خبر کا نچوڑ تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرانے شہر میں منشیات کے استعمال میں اضافہ ہوگا ۔ پرانے شہر کی سڑکوں پر اکثر آئے دن وائٹ نر کا نشہ کرنے والے حالت نشہ میں راہ چلتے لوگوں پر حملہ کرکے انہیں زخمی کردیتے ہیں۔ چارمینار جہاں بیرونی سیاحوں کے آنے جانے کا تانتا بندھا رہتا ہے وہاں بھی وائٹ نر کا نشہ کرنے والوں کے ہنگامے کے واقعات پیش آئے ہیں، ہمارے شہر کی سڑکوں پر بھی شراب کے پیاکٹ پی کر بے ہوشی کے عالم میں سڑکوں پر پڑے افراد بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ جو کبھی ممبئی کی سڑکوںکے یہ نظارے ہوا کرتے تھے، آج یہ نظارے ہمارے شہر میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گانجہ فروخت کرنے والے افراد کو پرانے شہر سے بھی گرفتار کیا گیاہے، ایسے واقعات اضلاع میں زیادہ ہیں پرانے شہر میں شائد اُکا دُکا ہوں۔

اس کے باوجود پرانے شہر کے نوجوانوں کے جیبوں کی تلاشی کیوں لی جارہی ہے؟ یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے ۔ شہر کے پاش علاقوں میں رہنے والے منشیات کی لعنت کا شکار ہیں اور منشیات کے عادی نوجوانوں کو اس بات کا پتہ ہے کہ منشیات کے حصول کے لیے کن علاقوں کا رخ کرنا ہے ۔شہر کے متمول طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کے رجحان میں اضافہ کیلئے پپ کلچر ذمہ دار بنتا جارہا ہے کیونکہ ان پبس میں منشیات کی فروخت کرنے والے سرگرم ہوتے ہیں … حال ہی میں نئے شہر کی بڑے ہوٹلوں سے شہر کے نامور لوگوں کے بچوں کو منشیات لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا …

خبر پرانے شہر کے ہوں یا نئے شہر کے نوجوان ، ملک کا مستقبل ہیں، انہیں منشیات کے زہر سے دور رہنا چاہیے… بری صحبتیں، زندگی کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیتی ہے اور بڑی سے بڑی دولت بھی صحت مند زندگی کو واپس نہیں لاسکتی، اس لئے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ منشیات کے نشے سے دوری اختیار کریں، ورنہ زندگی پچھتانے میں گذرجائے گی ، میر تقی میرؔ کے اس شعر کی طرح…

بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
٭٭٭



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *