مودی جی آسمانی باتیں‘زمینی حقیقتوں کے مطابق نہیں

[]

سید علی حیدر رضوی

سیاست میں صدق بیانی کے امید رکھنا اہل عقل کی نادانی ہے کیونکہ سیاست مصلحتوں کے تابع ہوتی ہیں۔ راست گفتگو اور صدق بیانی سیاست میں مصلحت کے بالکل مطابق نہیں ہے۔ کیونکہ سیاست داں اپنی دانست یہ سمجھتے ہیں کہ جو کیا جانا ہے وہ ہر گز بولا نہیں جانا چاہئے اور جو بولا جانا ہے ‘ اگر چیکہ بار بار بولا جائے لیکن ہر گز کیا نہیں جانا ہے تاکہ رعایا اب ہو جائے کہ جب ہو جائے گی ‘ امید وبیم میں رہیں اور ہر وقت توقع رکھیں کیونکہ توقع اور امید و بیم کے درمیان عوام کو لٹکائے رکھنا بھی عوام کو مایوسی میں مبتلا ہونے سے روکے رکھنا ہے۔ اس لئے کے وعدے ڈھارس بندھانے اور دلاسے دینے کا ایک سیاسی کھیل بھی تو ہے تا کہ حکومت اپنی ناکامیوں چھپا سکے اور یہ ظاہر کر سکے کہ وہ عوام کیلئے کچھ کر رہی ہے جس میں شائع کسی نہ کسی تاخیر ہو رہی ہے۔
مودی حکومت گزشتہ دس سالوں سے یہی کرتی آرہی ہے۔ وہ عوام کو وعدوں پر ٹرخاتی آرہی ہے۔ امید و مبہم کی کیفیت عوام کو دغدغاہٹ میں مبتلا کئے رہتی ہے ا ور اس اثناء میں حکومت کو عوام کے تقاضوں سے جان چھڑا نے کی مہلت مل جاتی ہے۔ مودی نے جب سے عنان حکومت سنبھالی ہے عوام سے صرف وعدے ہی کرتے آئے ہیں کبھی انہوں نے یہ وعدہ کیا کہ کالا دھن جو بیرونی ممالک کے ملکوں میں سیاست دانوں ‘گھپلے باز وں اور کالا بازاری کرنے والوں نے جمع کر رکھا ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ وہ اسے لا کر ہر ہندوستانی شہری کی جیب میں پندرہ پندرہ لاکھ روپئے ڈال دیں گے ‘ کبھی مودی نے بیروزگار نوجوانوں سے وعدہ کیا کہ وہ ہر سال انہیں دو کروڑ ملازمتیں فراہم کریں گے۔ مودی جی نے قوم سے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ ملک میں بد عنوانیوں ‘ رشوت خوری اور گھپلہ بازیوںسے پاک حکومت فراہم کریں گے۔ انہوں نے یہ جملہ بھی بڑے زعم سے کہا تھا کہ ’’ نا کھائو ںگا اور نہ کھانے دوں گا‘‘۔ انہوں نے یہ ڈینگ بھی ماری تھی کہ ملک کی معیشت کو تین ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچادیں گے۔ ملک کو دنیا کے نقشے پر وشوا گرو بنا کر چھوڑیں گے۔
یہ او ر ایسے بے شمار وعدے ہیں جنہیں یہاں گنوا یا جائے تو وعدوں کا انبار لگ جائے گا۔ ان تمام وعدوں میں جو اہم عہد انہوں کیا تھا وہ یہ تھا کہ ’’ سب کا ساتھ‘ سب کا وکاس‘ اور سب کا وشواس ‘‘ کاش اگر ان کا یہ عہد پورا ہو جاتا تو ملک جو آج ہزاروں پریشانیوں سے گزر رہا ہے اور جس بد امنی کی حالت میں ہے اس سے بچ جاتا اور کئی مسائل از خود حل ہو جاتے کیونکہ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے امن لازمی ہوتا ہے۔ افرا ء تفری اور بدامنی کسی بھی ملک کی اقتصادی طاقت کو مفقود کردیتی ہے۔ سماجی تانے بانے تار وپود کو بکھیر دیتی ہے لیکن مودی حکومت برقراری ‘ امن میں ناکام رہی بلکہ غنڈوں اور اشرار کو اپنی چھوٹ ملی کہ وہ مسلمانوں ‘ عیسائیوں اور دلتوں کو مختلف حیلوں ‘ بہانوں سر عام بلا کسی خوف و تردد کے قتل کر کے اپنی مونچھوں پر تائو دیتے رہے۔ وہ قتل کر کے بھی قانون کی گرفت سے بچے رہے کیونکہ وہ حکومتی مشنریاں جو انتظام و انصرام اور قانون کے نفاذ کی ذمہ دار ہیں۔ ان کو اپنی گرفت میں لینا ضروری نہیں سمجھا ۔ انہیں تو کھلی چھوٹ ملی ہوئی تھی۔ سرپرستی حاصل تھی‘ گائو رکھشک اور دیگر غنڈے ‘ کبھی لو جہاد تو کبھی حجاب اور کبھی نماز پر ہنگامہ آرائی اور قتل و غارت گری کرتے رہے۔
یوں تو مودی دور حکومت میں نقض امن کے بے شمار واقعات ہوئے۔ ہاتھرس سے لے کر دہلی فساد اور جامعہ ملیا پر حملے سے منی پور کا فساد لیکن جو بد نامی اور حکومت کی ناکامی کے تعلق سے خبریں ملک اور دیگر ملکوں میں گشت ہو ئیں وہ ملک کے نام سیاہ دھبہ ہے۔ اس واقعہ کو بھی تاریخ جلیان والا باغ کے واقعہ کی طر ح تاریخ یاد رکھے گی۔ یہ مودی حکومت کا نہ صرف نقض عہد اور نقض اعتماد ہے بلکہ حکومت کی شدید ناکامی اور بے عملی ہے۔ یہاں وہ کہاوت حرف با حرف صادق آتی ہے کہ روم جل رہا تھا اور نیرو بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ گویا روم کے جلنے سے نیرو کو کوئی سروکار ہی نہ تھا ۔
ہندوستان میں بھی ملک کی آزادی کے بعد ایک ایسی غیرکارکرد حکومت رہی ہے جو شیخ چلی کی طرح ہمیشہ بڑ بول بولتی تو رہی ہے لیکن بڑھ کر دو معمولی کام بھی نہ کر سکی جنہیں بتا کر حکومت کی کارکردگی کو دکھلایا جا سکے۔ مودی جی نے اندرون ملک عوام کو گمراہ کیا اپنی عدم کارکردگی کو مخفی رکھنے ایسے کارنامے بتائے جو سرے سے سر انجام ہی دئیے گئے ۔ لیکن گودی میڈیا نے ان ناکردہ کارناموں کو بڑے سلیقے سے اپنی کذب بیانی خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور عوام کو بھی بھرم میں مبتلا کیا لیکن آزاد صحافت خاص حقائق کی تحقیق کرنے والے صحافیوں نے جب بھانڈہ پھوڑ ا تو عوام حیرت میں مبتلا ہو گئے کہ کیا حکومت اس قدر لا اعتبار ہو سکتی ہے۔ اس قدر جھوٹ پھیلاسکتی ہے۔ ملک کے باہر بھی اپنے چہرہ پر ایک چہرہ لگا ئے جو ان کی طبیعت ‘ مزاج او رفکر سے مطابقت نہیں رکھتا ‘ گھومتے پھرتے اور ہندوستان کی وہ تصویر پیش کرتے رہے جو ہمارے ملک کے دستور میں دکھائی گئی ہے۔ یعنی ہندوستان ایک آزاد جمہوری ملک ہے اور سیکولر ہے۔ یہاں مساوات قائم ہے۔ ہر شہری کو یکساں حقوق اور یکساں مواقع میسر ہیں۔ کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جاتا لیکن آج کی اس ترقی یافتہ دنیا میں حقائق کو چھپانا اور دبانا ممکن ہی نہیں ہے۔ مواصلاتی ٹیکنالوجی بام عروج پر ہے۔ اب مخبر خواب گاہوں میں تک جھانک کر کر خبروں کی ترسیل کر رہے ہیں۔ اب تو پتہ پتہ بوٹاٹا حال ہمارا جانے ہے۔
جب 2002ء کے گجرات کے مسلم کش فسادات کی مفصل رپورٹ مع ثبوتوں کے بی بی سی نے ڈاکیومنٹری پیش کی تو مودی حکومت چراغ پا ہوگئی اور بی بی سی کے خلاف کارروائی کرنے کی دھمکی دے دی۔
اب مودی حکومت کی کارکردگی کی پول کھل گئی ہے۔ ملک اور بیرون ملک سب ہی واقف ہو چکی ہیں۔ گودی میڈیا اور دیگر اندھ بھگتوں نے جتنا ملمع چڑھا یا تھا اور چھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعہ قلعی کر کے چمکایا تھا وہ چمک دمک غائب ہو گئی ہے۔ یہ سب ایسے وقت ہو رہا ہے۔ جب پانچ ریاستوں اور مرکزی حکومت کے انتخابات کو شکل سے چھ ماہ کا وقت رہ گیا ہے۔ حکومت کی بدنامی بھی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ مودی حکومت اور ان کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس شدت پسندی پر اترآئی ہے۔ بوکھلا ہٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ دوبارہ بر سر اقتدار آنے کیلئے تیزی سے ہاتھ پائوں مار رہی ہے۔ لیکن کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ سچ ہے جب آدمی ڈوبنے لگتا ہے تو ہیبت اور خوف اور تیزی سے ٹیڑھے بنگے ہاتھ پائوں مارنے لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ اور ڈوب جاتا ہے اور تہہ میں پہنچ جاتا ہے۔اس وقت بی جے پی کو سب سے زیادہ ڈر اپوزیشن کی جماعتوں کے اتحاد انڈیا سے لگ رہا ہے کیونکہ یہ اتحاد بی جے پی حکومت کو بے دخل کرنے کیلئے ہوا ہے۔ کیونکہ اب ان تمام سیاسی جماعتوں کا یہ ماننا ہے کہ ملک کا دستو ر اور ملک کی سالمیت خطرے میں ہے۔ جمہوریت خطرہ میں ہے۔
اگر بی جے پی دوبارہ 2024ء میں برسر اقتدار آجاتی ہے تو اس کی مدت کار جو 2029 ء تک ہوگی اس عرصہ میں وہ ہندوستان کے دستور کو کالعدم کرکے ہندو راشٹر بنا دے گی اور ملک کا مذہب ’’ سناتن دھرم‘‘ قرار دے دے گی۔ اقلیتوں سے کہہ دے گی وہ کسی بھی مذہب سے کیوںنہ تعلق رکھتے ہوں وہ اپنے خاندانی نام کے ساتھ ہندو نام بھی جوڑیں۔ یہ کوئی گمان نہیں ہے بلکہ آر ایس ایس کے قائدین اور بعض حکومت کے قائدین یہ کہہ چکے ہیں ۔ بقول سابقہ گورنر ستیہ پال ملک یہ بھی ممکن ہے کہ ملک کا دستور ختم کر کے منو سمرتی کی اساس پر نیا دستور مدون ہوگا۔ دراصل یہ برہمن راج ہوگا۔
ان ہی احتمالات اور قوی امکانات کے تحت تمام اپوزیشن سیاسی پارٹیوں نے متحد ہو کر یہ نعرہ دیا ہے کہ ملک بچائو ‘ دستور بچائو‘ جمہوریت بچائو‘ انڈیا بچائو‘ چنانچہ تمام حزب اختلاف کی سیاسی پارٹیوں نے بڑے غور وخوض اور عرق ریزی کے بعد اپنے اس غیر معمولی اتحاد کو غیر معمولی نام دیا ہے جو آج کے حالات اور بی جے پی کے پیدا کردہ ماحول پر کاری ضرب لگائے والا نام ہے۔ یعنی ’’ انڈیا‘‘ نام میں سارے ہندووستانیوں کیلئے کشیش ہے۔ معنیٰ پرور اور معنیٰ خیز ہے۔نام سن کر ہی بی جے پی اور ا ٓر ایس ایس کے اوسان خطا ہو چکے ہیں لہٰذا وہ لفظ انڈیا ہی پڑ ہی اعتراضات کر رہے ہیں جو مہمل ہیں۔ وہ انڈیا نہ کہہ کر ’’ بھارت کہنے پر اصرار کر رہے ہیں بلکہ اسی بھارت نام سے جی 20اجلاس کے شرکاء کو دعوت نامے بھی بھیج رہے ہیں۔ بی جے پی کو لگ رہا ہے کہ الیکشن میں اپوزیشن کو اسکا زبردست فائدہ ملے گا۔ چنانچہ مودی اور انکا ٹولہ آر ایس ایس سمیت اپنی مسخ شدہ چھبی کو سدھارنے اور حکومت کو عوام کیلئے قابل قبول بنانے کی کوشش کر رہے ہیںتو دوسری طرف تمام مذاہب کے ووٹروں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ مہنگائی بیروزگاری ‘ جیسے مسائل کی یکسوئی کیلئے کبھی پکوان گیس کی قیمتوں میں کمی کر رہے ہیں۔ کبھی پٹرول اور ڈیزل کے نرخ کم رہے ہیں۔ جی ایس ٹی کی شرح بھی کم کرنے کا اشارہ دے رہے ہیں تو دوسری غیر ہندو ووٹروں کو منانے اور انہیں اپنے پالے میں لانے کیلئے ’’ وسودھیوکٹمبھ‘‘ کا ورد کرکے اس کے معنی بتارہے ہیں۔ جو بتلاتا ہے پوری دنیا ایک خاندان ہے۔ یہ وہی نعرہ ہے جو مودی نے 2014 ء میں الیکشن جیتنے کیلئے لگایا تھا یعنی سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس چونکہ اب نعرہ اپنی معنویت کھوچکا ہے لہٰذا پھر سے عوام کو بے وقوف بنانے یہ لائے ہوئے الفاظ کئے ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سناتن دھرم نے ساری دنیا کو تو چھوڑئیے خود اپنے ہی ہم وطنوں کو ایک ہی خاندان کے افراد نہیں سمجھا اگر سمجھا ہوتا تو ہندو مذہب میں ذات پات کو تقسیم نہیں ہوتی۔ دلت ‘ آدی واسی اور قبائل بھی خاندان کے افراد ہوتے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰



[]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *